تمام طرح کی جنگ میں پوشیدہ ہیروز ہوتے ہیں جو شہ سرخیوں کے پس پشت کام میں مشغول ہوتے ہیں۔ ان کا کام جان بچانا، تکالیف کم کرنا یہاں تک کہ لوگوں کو باوقار انداز میں مرنے میں امداد کرنا بھی شامل ہے۔
پوری دنیا میں ان جنگوں کے پوشیدہ فوجی نرسیں ہیں جو زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔
2015 کی ’100 خواتین‘
’دائی نے وہ حال کیا کہ آٹھ آپریشن کرنا پڑے‘
بہت سی نرسیں اپنا ہر دن جنگی محاذ پر گزارتی ہیں اور دنیا کو اس نظر سے دیکھتی ہیں جن کی ہمیں صرف جھلک ہی ملتی ہے۔
لیکن جو جنگ زدہ علاقوں میں کام کرتی ہیں ان کی زندگی بہت ڈرامائی ہوتی ہے۔ ایسے میں ہر دن جنگ سے نبرد آزما ہونا کیسا ہوتا ہے؟
بی بی سی نے دنیا کے تین مختلف علاقوں میں جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کیا تاکہ ایسی بعض خواتین سے ملاقات کر سکے۔

فاصلوں کے باوجود ان میں قدر مشترک کے طور پر جو چیزیں شامل ہیں وہ ہیں بہادری، اپنے کام کے متعلق غیرمتزلزل عہد اور اپنے گرد مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا۔
رائزا پیٹوجا کیراکس کے پیریز کیرینیو ہسپتال میں ایکسیڈنٹ اور ایمرجنسی (اے ایند ای) کی نرس ہیں۔ یہاں قتل کی شرح بہت زیادہ ہے۔ وہ کہتی ہیں ’پیریز کیرینیو کا ایمرجنسی وارڈ ویت نام جنگ کی طرح ہے۔ اور ہم اسے واقعتا اسی نام سے پکارتے ہیں۔ جب کوئی سرجری وارڈ میں جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ ویت نام جا رہا ہے۔‘
منشیات مافیا اور مختلف گروہوں کے درمیان جنگ سے شہر خوفزدہ رہتا ہے اس کا اثر ہسپتال پر بھی نظر آتا ہے۔ یہ وارڈ اس قدر خطرناک جگہ ہے کہ فوجی اور پولیس کے ذمے اس کی حفاظت ہے اور یہاں تصویر لینا سخت منع ہے۔

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جب سکیورٹی ناکام ہو جاتی ہے اور سب بھاگ کھڑے ہوتے ہیں تو ایسے میں رائزا اور ان کی ٹیم وارڈ میں گشت کرتی ہیں۔
وہ بغیر کسی تاثر کے کہتی ہیں ’جب وہ لوگ ہسپتال آتے ہیں تو عموماً نرسوں کو تشدد کا نشانہ نہیں بناتے۔ وہ عام طور پر دوسرے گروہ کے مریضوں یا پھر ڈاکٹروں پر حملہ کرتے ہیں جو ان کے مریض کی دیکھ بھال نہیں کرتے۔‘
27 سال کی عمر تک عزا جدلہ کا چھ جنگوں سے سابقہ پڑ چکا ہے اور گذشتہ سات برسوں میں انھوں نے تین جنگیں دیکھی ہیں۔ وہ غزہ کے ہسپتال ’الشفا‘ میں کینسر کے وارڈ کی نرس ہیں۔ ہر دن وہ اسرائیل اور غزہ کی حکومت حماس کے درمیان جنگ کا نتیجہ دیکھتی ہیں۔

خستہ معیشت کے نتیجے میں انھیں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’ہمیں کئی کئی مہینے تک تنخواہ نہیں ملتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے کام پر توجہ نہیں دیں کیونکہ اس میں مریض کی کوئی غلطی نہیں ہے۔‘
سہولت کی کمی کے باوجود وہ جو کر سکتی ہیں کرتی ہیں۔ ان کے ہاں لیوکیمیا کا ایک مریض ہے جس کا علاج غزہ سے باہر ہے لیکن سرحدیں بند ہیں اور باہر جانے کی اجازت ملنے تک اس کے بچنے کا کم ہی امکان ہے۔
انھوں نے کہا: ’ہمیں افسوس ہوتا ہے اگر مریض کے لیے علاج نہ ہو۔ وہ کینسر کا مریض ہے اس کے لیے ہر منٹ اور ہرگھنٹہ اہم ہے۔‘
42 سالہ میری اینگی کؤتؤ وسط افریقی جمہوریہ کے ایک گاؤں کابو میں ’ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈر‘ کے ہسپتال میں نرس ہیں۔

یہ علاقہ دسیوں سال کی خانہ جنگی کے نتیجے میں غیر محفوظ ہے۔ کؤتؤ کو صرف تین ماہ کی تربیت حاصل ہے لیکن سٹاف کی کمی کے سبب انھیں وہ تمام کام کرنا پڑتا ہے جو دوسری دنیا کی نرسیں کرتی ہیں۔
وہ روزانہ خوراک کی کمی کا شکار سینکڑوں بچوں کو دیکھتی ہیں جو جنگ کا براہ راست نتیجہ ہے۔ مسلح گروہوں کی آوارہ گردی کے باعث لوگوں نے جان کے ڈر سے اپنے کھیتوں میں جانا چھوڑ دیا ہے۔ کؤتؤ کہتی ہیں ’ہم ہسپتال سے زیادہ دور نہیں جاتے اگر کوئی کام ہوا تو کرلیا ورنہ سونے چلے گئے۔ لوگ ادھر ادھر ٹہل نہیں سکتے اور اگر ٹہلتے ہیں تو خوفزدہ رہتے ہیں۔‘

وہ اپنے اہل خانہ سے ہزاروں میل کی دوری پر رہتی ہیں اور ان کے چار بچے ہیں جن سے وہ کرسمس کے بعد نہیں ملی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’یہ مشکل ہے لیکن میں کیا کر سکتی ہوں۔ مجھے کام کرنا ہے تاکہ میرے خاندان کا بھلا ہو۔ لیکن مستقبل میں، میں اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔‘
ہرچند کہ یہ خواتین خبریں نہیں بناتی لیکن یہ مستقل مزاج اور بہادر خواتین روزانہ ایسے غیر معمولی حالات سے دوچار ہوتی ہیں کہ انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
No comments:
Post a Comment