Wednesday, 18 November 2015

AB GOLD WAHAN JHAN KOI BHI SOCH NAHI SAKTA

دنیا کا وہ شہر جس کے گٹروں میں کسی بھی کان سے زیادہ سونا ہے، 

سائنسدانوں کا ایسا انکشاف کہ سب دنگ رہ گئے


    لندن (نیوز ڈیسک) پسماندہ ممالک کے غریب لوگوں کے لئے اپنی زندگی کے اہم ترین مواقع پر بھی سونے جیسی قیمتی دھات کی قلیل مقدار کا حصول بھی ممکن نظر نہیں آتا لیکن دوسری طرف لندن جیسے امیر شہر میں یہ صورتحال ہے کہ ہر سال اڑھائی کروڑ ڈالر (تقریباً اڑھائی ارب پاکستانی روپے) سے زائد مالیت کا سونا سیوریج میں بہا دیا جاتا ہے۔ 
    جریدے ”فائنانشل پوسٹ“ کا کہنا ہے کہ کارڈیف یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لندن کے سیوریج سسٹم میں قیمتی دھاتیں اور خصوصاً سونے کے ذرات بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ یہ مقدار اس قدر زیادہ ہے کہ عام طور پر سونے کی کانوں میں ہی اتنی بڑی مقدار دیکھنے میں آتی ہے۔کارڈیف یونیورسٹی کی ماہر ارضیات ہیزل پریچارڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیوریج سے برآمد ہونے والے فاضل مادوں پر ایک عرصے تک تحقیق کی ہے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی ہیں کہ ان میں سونے کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ سونے کے یہ باریک ذرات زیورات کو دھونے یا سونے کے دانتوں کو برش کرنے جیسے افعال کی وجہ سے سیوریج سسٹم میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور ان کی مجموعی تعداد ہماری توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈاکٹر پریچارڈ کہتی ہیں کہ سیوریج کے فاضل مادوں کو جمع اور صاف کرنے والے مراکز پر کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ لندن کے سیوریج سسٹم میں ہر ایک ملین ذرات میں سے تین سونے کے ذرات ہوتے ہیں، اور عام طور پر سونے کی کانوں سے حاصل کئے جانے والے سونے کے ذرات کی شرح بھی یہی ہوتی ہے۔ 
    اس سے پہلے ٹوکیو میں سیوریج کے پانی سے سونا اکٹھا کرنے کا عملی مظاہرہ کیا جاچکا ہے اور اس سونے کی مقدار ایک اوسط کان سے ملنے والے بھرت میں موجود سونے کے برابر قرار دی گئی۔ اب ڈاکر پریچارڈ بھی لندن کے سیوریج سسٹم سے سونا نکالنے کے لئے انتظامات کررہی ہیں۔

    No comments:

    Post a Comment