ASAD ALI SHAH PAIL asadalishahpail@gmail.com azeemadmi.blogspot.com phone 923144911480 |
|
|
کھبکی۔۔۔۔تحریر ملک خدابخش مسافر اعوان
موضع کھبکی وادی سون سکیسر کے دیہاتوں میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے یہ موضع سون سکیسر کے مشہور قصبہ نوشہرہ سے سڑک کے راستے سات میل شمال مشرق کو واقع ہے۔ (کھبکی سے نوشہرہ کو پیدل راستہ براستہ اچھالہ (اوچھالہ) چار یا پانچ میل ہے ) کھبکی بذریعہ سڑک مغرب کو نوشہرہ اور خوشاب سے ملا ہوا ہے اور مشرق کی طرف جابہ، پیل، چکوال، کٹھہ، راولپنڈی وغیرہ سے ، یہاں کی جھیل مشہور ہے۔قطب شاہ کی پانچویں پشت میں ایک شخصیت مدھو ہوا ہے جس نے کھبکی گاؤں کی بنیاد رکھی تھی۔ زمانے کے ساتھ ساتھ کھبکی کا محل وقوع بھی تبدیل ہوتا رہا ۔ جس جگہ اب کھبکی آباد ہے یہ اس کی تیسری یا چوتھی منتقلی ہے۔ پرانی کھبکی کے آثار شمال کیطرف ’’ الھوڑہ‘‘ اور جنوب کی طرف سوڈھی والے راستے کے آس پاس موجود ہیں۔ موجودہ کھبکی کی جگہہ کبھی ’’ حرملوں والی چاہڑی‘‘ کے نام سے مشہور تھی کیونکہ یہاں کافی تعداد میں حرمل اگتے تھے۔ کھبکی جس وادی میں واقعہ ہے اس کے شمال اور جنوب کی طرف شرقا غربا پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں یہ وادی شرقا غربا تقریبا آٹھ میل لمبی اور جنوبا شمال ڈیڑھ میل اوسطا چوڑی ہے۔ کھبکی اس وادی کے عین وسط میں آباد ہے۔ شمال کی طرف بڑی وسیع و عریض سطح مرتفع پھیلی ہوئی ہے جسے ’’ پچون ‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر ڈھوکیں آباد ہیں۔ یہ ڈھوکیں اور پچون کی مزروعہ زمینیں سب کھبکی والوں کی ہیں۔ کھبکی کی حدود مغرب میں مردوال تک اور مشرق میں جابہ تک جاپہنچتی ہیں۔ اسی طرح شمال میں تھوہامحرم خان اور چینچی (ضلع کیمبل پور) اور جنوب میں سوڈھی کی حدود سے جاملتی ہیں۔ پچون کے مشرق اور شمال کی طرف مختلف پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں جومحکمہ زراعت کی زیر نگرانی ہیں مقامی بولی میں ان جنگلات کو کھدر کہتے ہیں کھدر کے خاتمہ پر شمال کی طرف ضلع کیمبل پور شروع ہو جاتا ہے کھبکی سے پانچ میل شمال کو جائیں تو ضلع کیمبل پور کی حد ملتی ہے۔ کھبکی سے اٹھارہ میل مشرق کو جائیں تو ضلع جہلم کی حد ملتی ہے کھبکی سے دس میل مغر ب کو جائیں توضلع میانوالی کی حد ملتی ہے۔ کھبکی سے جنوب کی طرف بیالیس میل پختہ سڑک اور تیس میل براستہ پیدل راہ خوشاب ہے۔ قطب شاہ کی تیرھویں پشت میں جھام ہواہے جس کے متعلق ایک روایت مشہور ہے کہ جھام بہت چھوٹی عمر میں باتیں کرنے لگا تھا ۔اس کی ماں اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ اسے کھدر (جنگل) میں برسر راہ ایک ڈھبی(پہاڑی) پر ڈال دیا۔ کسی راہگیر کی نظر جھام پر پڑی اس نے اسے اٹھا لیا ۔چھ سات ماہ کے بچے نے جب اسے اپنے والدین اور گھر کا پتہ بتایاتو راہگیر نے بھی خوفزدہ ہو کر اسے وہیں رکھ دیا۔ لیکن راہگیر نے اتنا کام کیا کہ جھام کے باپ نڈھا کو اطلاع کر دی ۔نڈھا خود جا کر بچے کو گھر اٹھالایا اور گھر پہنچ کر بچے نے مسکرا کر یہ ضرب المثل کہی ۔ جو آج تک زبان زد و عام ہے۔ ’’آپنیاں کھڑمتیں جھام ڈھبیاں اتے سٹیندا‘‘ یعنی اپنی غلطیوں کے باعث جھام پہاڑیوں پر پھینکا گیا۔ اپنی غلطی یہ تھی کہ جھام شیر خوارگی میں ہی باتیں کرنے لگ گیا تھا۔ اسی دن سے اس پہاڑی کا نام ’’ جھامے والی پہاڑی‘‘ پڑ گیا۔
جھامے والی ڈھبی سے مشرق کی طرف ایک اور پہاڑی ہے جو موروثی والا کے نام سے مشہور ہے۔ اس پہاڑی پر موروثی کی قبر آج تک موجود ہے۔ موروثی قطب شاہ کی سترھیوں پشت پر ہوا ہے۔ اہالیان کھبکی اس کی قبر کو احتراما لیپ پوت رکھتے ہیں۔ قطب شاہ کی تیئسویں پشت میں خان بلاقی اور دریا خان دو بھائی تھے ۔خان بلاقی صاحب اقتدار سخت مزاج اور زمانہ ساز آدمی تھا ۔ اس کے برعکس دریا خان نرم دل،سادہ لوح اور عبادت گذار انسان تھا۔ خان بلاقی دریا خان کی سادہ لوحی اور بے نیازی سے بہت چڑتاتھا اور اسے تحقیر آمیز نظروں سے دیکھتا تھا۔
سردیوں کی ایک رات کا پچھلا پہر تھا ۔ خان بلاقی تہجد پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا ۔مسجد کے ایک گوشے میں اس نے ایک کمبل پوش کو مصروف عباد ت دیکھا حیران ہوا کہ اس قدر سردی میں اس وقت عبادت کرنے والا کون ہوسکتا ہے۔ کمبل پوش نے سلام پھیرا تو خان بلاقی نے پوچھا۔ کون ہو تم؟ دریا خان منہ سے کچھ نہ بولا۔چہرے سے کمبل ہٹا کر اپنے بھائی کی طرف دیکھا ۔ خدا جانے اس نگاہ میں کون سا راز پوشیدہ تھا کہ بے اختیار بلاقی خان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔’’ تم عظیم ہو دریا خان! میں ہی غلطی پر تھا‘‘ ۔اس دن سے خان بلاقی دریا خان کی عظمت کا معترف ہو گیا اور اسے عزت و توقیر کی نظروں سے دیکھنے لگا۔ PICTURE DEKHNY KE LIHY ISE LINK PER CLICK KARIN
|
|
No comments:
Post a Comment