Monday, 16 November 2015

Positive Thinks

مثبت تحریکیں ضرور ہونی چاہئیں






    ہر ذی شعور کم از کم اتنا تو جانتا ہے فلاحی حکومتیں بھولے سے بھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاتیں کہ جن سے قوم کے مفادات کو کسی قسم کا نقصان پہنچے ،لیکن اس کے برعکس اگر حکومت کے اختیارات کبھی مقصود بالذات ہو جائیں تو ایسے حالات میں ظالم سے ظالم حکومت کے خلاف بھی آواز اٹھائی جا سکتی ہے،جبکہ مجبوراً ایسے حالات کو قبول کر لینا قوموں کو تباہ کر دیتا ہے،جن کو دیکھتے ہوئے قوم پرست اور محب وطن کابھی حکومت کے خلاف ہوجانا فطری عمل ہے۔اگر کوئی حکومت اپنی طاقت کے زور پراپنی ہی قوم کو تباہ کرنے کے لئے استعمال شروع کر دے تو اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہر محب وطن شہری کا اولین فرض ہے۔کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے کامیاب تحریک کا ہونا ضروری ہے۔اور عمومی طور پر کامیاب اور حقیقی تحریک کی وجہ حکمران طبقہ کا عوام کے مسائل سے دروغ گوئی بنتا ہے۔ 
    رہا یہ سوال کہ آیا ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ ہماری قوم آواز حق بلند کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہو ؟ تو معاف کیجئے اس کا جواب اصولی نکتہ نوازیوں سے نہیں دیا جا سکتا،اس کا جواب صرف عوامی مشترکہ طاقت میں مضمر ہے اور ایسے مسائل کی آخری کسوٹی کامیابی ہے۔دنیا کی ہر حکومت چاہے وہ کتنی ہی بد ترین ہی کیوں نہ ہو اور اس نے قوم کے اعتماد سے ہزار طرح غداری کیوں نہ کی ہو۔وہ اور اس کے حواری استحصالی قوتیں تو یہی دعویٰ کریں گے کہ حکومت کا اقتدار قائم رکھنا ملک و قوم کے حق میں بہتر ہے۔وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاکھوں ایسے دلائل لے آتے ہیں جوان کے اقدامات کو جائز قرار دینے کے لئے بظاہر کافی نظر آتے ہیں،لیکن یہ سب اقدامات بھی حکومت کی گرتی ساکھ کو نہیں بچا سکتے،بلکہ قوم سے محبت کرنے وا لے جو کسی مصلحت کے تحت خاموش بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی میدان عمل میں کود کر دوسروں کو محو حرکت کر دیتے ہیں۔یوں سب جان جاتے ہیں کہ ایک خاص تحریک کے ذریعہ ہی ہم ایسے راج کے خلاف کامیاب ہو سکتے ہیں اور اپنے لئے آزادی و خود مختاری حاصل کر کے نہصرف مشترکہ دشمن کو شکست دے سکتے ہیں، بلکہ وطن عزیز کو کمال درجہ تک پہنچا سکتے ہیں۔ 

    یہاں خدشہ صرف یہ ہے کہ ان کے مخالف، بلکہ ستم گر اپنی طاقت کو غیر قانونی ذرائع سے استعمال کر سکتے ہیں، لیکن حق پر ڈٹے رہنے والوں جنہیں عموماً باغی کہا جاتا ہے کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا حق حاصل ہے۔ (یہاں باغی کا مطلب محترم جاوید ہاشمی نہیں)کیونکہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ انسان کی زندگی کا اولین مقصد حکومت کا حصول نہیں،بلکہ اپنی قومیت کو قائم رکھنا ہے۔اگر قومیت کو مٹانے کی کوشش کی جائے یا اس پر ظلم ڈھائے جائیں تو ایسے حالات میں قانون کی پابندی محض ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ذرا تصور کریں کہ جو طاقت برسراقتدار ہے وہ تو ممکن ہے کہ محض مزعومہ قانونی وسائل پر اکتفا کر لے ، لیکن جن پر ستم ٹوٹ رہے ہیں وہ ہر ممکن وسیلہ سے کام لیں گے۔ان کا خود حفاظتی کا طبعی احساس انہیں یقین دلا دے گا کہ ان کا طرز عمل بدرجہ اتم جائز ہے۔
    مت بھولیں کہ تاریخ میں غیر ملکی غلامی کا طوق اتارنے یا ملکی ظلم و ستم کے خاتمہ کرنے کے لئے شاندار تحاریک کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ملکی تحریک شروع کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ انسانی حقوق حکومتی حقوق سے بالا تر ہیں۔وہ یہ بھی نہیں بھولتے کہ اگر کوئی قوم اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے اور ناکام رہتی ہے تواس کے معنی یہ ہیں کہ وہ وقسمت کے ترازو میں پورا نہیں اتری،وہ اس عالم خاکی میں زندہ رہنے کے قابل نہیں۔یہ بنیادی فلسفہ کے ساتھ چلنے والی تحریکیں اکثر اوقات کامیاب رہتی ہیں۔

    تحریک کے کرتا دھرتا کی پہلی کامیابی اس وقت شروع ہو جاتی ہے ،جب کمزور دل والے بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں، مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ظلم و ستم ڈھانے والے بھی کمزور دل ہوتے ہیں،فرق صرف اتنا ہے کہ وہ طاقت اور نام نہاد قانون کی آڑ لے کر عارضی تحفظ توحاصل کر لیتے ہیں، لیکن تاریخ میں ان کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔آنکھوں پر عینکیں سجائے گلہ پھاڑ پھاڑ کر اصولی بحثیں کرنے والے قوم کے لئے کبھی جان قربان نہیں کرتے، اور عمل بھی ندارد۔
    تحریکوں کی اصل طاقت غریب ہوتے ہیں۔کھاتے پیتے لوگوں میں جدوجہد کا جذبہ نہایت کمزور ہوتا ہے۔کمزوری کی وجہ ان کے کاروباری مفاد ہوتے ہیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے اپنے ذاتی مفادات سے بڑھ کر سوچنا ہوتا ہے۔موجودہ حالات نے ہمارے ہاں امیر اور غریب کے فرق کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ امراء سمٹ رہے ہیں اور غرباء کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔جو متوقع تحریک کی اصل روح ثابت ہوں گے۔بہرحال بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک کسی ضابطہ حیات کے لئے عوام الناس یہ اعلان نہیں کر دیتے،کہ ہم اس کے علمبردار بنیں گے اور جہاں کہیں اور جس حد تک ضرورت ہو ہم اس کی خاطر مرنے مارنے کو تیار رہیں گے۔تب تک اس ضابطۂ حیات کی کامیابی کی کوئی امید نہیں۔
    تحریک کی کامیابی کے لئے ایک شرط لازمی ہے کہ سپوتوں کی شرکت لازمی ہے ۔کسی نیک مقصد کے لئے دنیاوی پل صراط کو عبور کرنا عام لوگوں کا ہی کام ہے،لیکن ہمارے ہاں کی اکثریت ذہنی طور پر اس مقدس کام کے لئے تیار ہو چکی ہے۔جس کی بڑی وجہ عوام کا پارلیمینٹ سے مایوس ہونا ہے۔عوام کا یہ مغالطہ دور ہو چکا ہے کہ پارلیمینٹ ان کی خاطر کوئی اچھا کام کرے گی۔اب عوام اپنے ان مطلب پرست لیڈروں سے مایوس ہوچکے ہیں جو قومی منبر پر کھڑے دھواں دار تقریریں کر کے ورغلاتے رہے ہیں۔وقت تیزی سے بدل گیا ہے اور بکھری ہوئی قوم متحد بھی ہو رہی ہے اور باشعور بھی۔

    پارلیمینٹ سے باہر عوام کے درمیان کی گئی تقریر زیادہ اثر رکھتی ہے۔خوش کن بات یہ ہے کہ عوامی رابطہ اور تقاریر شروع ہو چکی ہیں۔جن کو عوام کی پذیرائی بھی حاصل ہو رہی ہے۔مزید تسکین کی بات یہ ہے کہ لوگ قائل، بلکہ مائل ہو رہے ہیں۔دنیا بھر میں یہی ہوا ہے کہ ہر تحریک نے ایک نیا ضابطہ حیات دیا ہے۔ہمارے ہاں احتساب کا نعرہ لگ رہا ہے۔اس مرتبہ تحریک کے قائدین لالچ کی بجائے قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔صرف تین چیزوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔(1) عام جلسوں میں سنجیدہ افراد کی تعداد ابھی ضرورت سے کم ہے۔(2) مضبوط دلائل کے ساتھ تقاریر کرنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ (3) موجودہ تحاریک کا عوام سے رابطہ ابھی مضبوط نہیں ہوا۔اگر یہ خامیاں بھی دور ہو گئیں تو تحریک طاقت حاصل کر کے اس کو انقلاب میں بدلتے دیر نہیں لگے گی۔اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔آمین۔

    No comments:

    Post a Comment