آپ سیلفی ضرور لیں
پیر 21 دسمبر 2015 | PM 11:48:29
ٹونی روبنز امریکا کا مشہور ”موٹی ویشنل سپیکر“ اداکار‘ سیلف ہیلپ رائٹر اور کوچ ہے‘ فوربس میگزین نے 2007ءمیں ٹونی روبنز کو دنیا کی سو مشہور ترین شخصیات میں شامل کیا تھا‘ اس کی ایک کتاب ”ان لمیٹڈ پاور“ نے دنیا میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے‘ یہ کیلیفورنیا کا رہنے والا تھا‘ تین بہن بھائیوں میں بڑا تھا‘ سات سال کی عمر میں والدین میں طلاق ہو گئی‘ ماں نے اس کے بعد بے شمار شادیاں کیں مگر ہر شادی کا انجام طلاق نکلا‘ ٹونی تعلیم مکمل نہ کر سکا‘ ماں نشے کی لت میں مبتلا تھی‘ چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر تھی‘ یہ جیسے تیسے یہ ذمہ داریاں پوری کرتا رہا‘ یہ 17 سال کا تھا‘ ماں چھری لے کر اس کے پیچھے بھاگی‘ یہ گھر سے نکلا اور پھر واپس نہیں گیا‘ یہ جم رون کا اسسٹنٹ بنا‘ پھر اپنا کام شروع کیا اور دنیا کو حیران کر دیا‘ اس کے لفظوں میں طاقت ہے‘ یہ چند الفاظ بولتا ہے اور لوگوں کی کیفیت بدل جاتی ہے‘ امریکا کے بڑے بڑے کارپوریٹ گرو‘ سیاستدان‘ کھلاڑی اور اداکار اس کے کلائنٹ ہیں‘ صدر بل کلنٹن اور صدر جارج بش بھی اپنی نفسیاتی الجھنوں میں ٹونی روبنز کی مدد لیتے تھے‘ انسانوں کو دکھوں سے نکالنا ٹونی روبنز کی خصوصیت ہے‘ لوگ اس کے پاس آتے ہیں‘ یہ ان سے گفتگو کرتا ہے اور لوگ اپنی الجھنوں‘ اپنے دکھوں سے نکل جاتے ہیں‘ اس نے زندگی میں ہزاروں لوگوں کا علاج کیا‘ یہ تمام لوگ ٹونی کی کامیابی کی داستان ہیں۔
مجھے ایک بار ٹونی روبنز کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ انٹرویو لینے والے نے پوچھا ”دنیا کا کون سا دکھ‘ کون سا نقصان ہے جس کا علاج ٹونی روبنز کے پاس نہیں“ ٹونی روبنز نے ہنس کر جواب دیا ”اولاد کا دکھ“ انٹرویو لینے والا خاموشی سے دیکھتا رہا‘ ٹونی نے لمبی سانس لی اور بولا ” میں لوگوں کو ہر قسم کے دکھ سے نکال لیتا ہوں لیکن میں آج تک ان والدین کا علاج نہیں کر سکا جنہوں نے کسی حادثے‘ کسی ان ہونی یا کسی بیماری میں اپنا بچہ کھو دیا ہو“ ٹونی کا کہنا تھا ”اولاد بالخصوص جوان اولاد کا نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے‘ دنیا کے کسی شخص کے پاس اس نقصان کا کوئی علاج موجود نہیں“ ٹونی روبنز کے الفاظ نے مجھے حیران کر دیا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ کسی عام انسان کا اعتراف نہیں تھا‘ یہ دنیا کے ایک بڑے موٹی ویشنل سپیکر کا اعتراف تھا چنانچہ میں اسے مسترد نہیں کر سکتا تھا‘ ٹونی کی بات غلط نہیں تھی‘ اولاد انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے‘ ہم اپنی زیادہ تر کمزوریوں پر قابو پا لیتے ہیں لیکن ہم سرتوڑ کوشش کے باوجود اولاد کی کمزوری سے باہر نہیں نکل پاتے‘ آپ اگر والد یا والدہ ہیں تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ بچے یا بچی کی موت انسان کو کہاں کہاں سے زخمی کرتی ہے اور انسان پھر ان زخموں کے ساتھ کیسے زندگی گزارتا ہے؟ زندگی کا ایک عمل ہے‘ انسان پیدا ہوتا ہے‘ پڑھتا ہے‘ بڑا ہوتا ہے‘ کیریئر بناتا ہے‘ شادی کرتا ہے‘ بچے پیدا کرتا ہے‘ ان کی پرورش کرتا ہے‘ ان کی شادیاں کرتا ہے اور پھر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے‘ یہ عمل اگر اسی طرح چلتا رہے تو کوئی ایشو‘ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر کسی والد یا والدہ کو ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں اپنے کسی بچے کی لاش اٹھانی پڑ جائے‘ اس کا جنازہ پڑھنا پڑ جائے یا اس کی تدفین کرنی پڑ جائے تو آپ خود اندازہ کیجئے‘ ان بے چاروں پر کیا گزرے گی‘ اولاد کا غم بہت خوفناک ہوتا ہے‘ یہ چند گھنٹوں میں انسان کی ہڈیاں سُکیڑ دیتا ہے‘ والد 36 انچ کی پتلون پہن کر قبرستان جاتا ہے اور جب بچے کی تدفین کے بعد گھر لوٹتا ہے تو اس کی کمر 34 انچ ہو چکی ہوتی ہے‘ آپ اپنے اردگرد دیکھیں‘ آپ کو ایسے درجنوں لوگ ملیں گے جن کے سر پر بچے کی موت کا تودا گرا اور اس کے بعد ان لوگوں نے باقی عمر زندگی کا ماتم کرتے کرتے گزاری‘ وہ زندگی کا مرثیہ بن کر رہ گئے‘ موت برحق ہے‘ یہ آ کر رہتی ہے‘ دنیا میں جو بھی وجود ایک بار سانس لیتا ہے‘ اس کو موت کا ذائقہ ضرور چکھنا پڑتا ہے‘ خواہ وہ دیوتا ہو یا نبی‘ ولی ہو یا بادشاہ‘ ہم نے بھی مر جانا ہے اور ہماری آل اولاد نے بھی‘ یہ حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت اگر اس حد تک رہے تو کوئی مضائقہ نہیں‘ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اولاد موت کو خود دعوت دیتی ہے‘ یہ جان بوجھ کر ایسی ”ون ویلنگ“ کرتی ہے جس کے آخر میں موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ وہ موت ہے جو والدین کو عمر بھر زندہ نہیں رہنے دیتی۔
آپ راولپنڈی کی مثال لے لیجئے‘ ہمارے شہر میں چند دن قبل جمشید پرویز نام کا ایک 22 سالہ نوجوان چلتی ٹرین کے سامنے سیلفی بناتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا‘ یہ نوجوان ڈھوک رتہ کا رہنے والا تھا‘ طالب علم تھا‘ عمر 22سال تھی‘ نوجوان کا والد ریلوے میں درجہ چہارم کا ملازم ہے‘ جمشید تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک جنرل سٹور پر 150 روپے دیہاڑی پر کام بھی کرتا ہے‘ جمشید کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں‘ یہ 15 دسمبر کو اپنے کلاس فیلو وسیم کے ساتھ کالج سے واپس آ رہا تھا‘ یہ دونوں مریڑھ چوک میں پہنچے تو ان کے دماغ میں ایک عجیب شیطانی خیال آیا‘ یہ پل پر چڑھے اور ریل کی پٹڑی پر چلنے لگے‘ سامنے سے ٹرین آرہی تھی‘ جمشید نے چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنانے کا فیصلہ کیا‘ دوست وسیم اس کو سمجھاتا رہ گیا لیکن جمشید نے موبائل نکالا‘ وسیم کو ساتھ کھڑا کیا اور سیلفی بنانے میں مصروف ہو گیا‘ ٹرین کی رفتار تیز تھی‘ وہ سیلفی سے پہلے ان تک پہنچ گئی‘ وسیم نے چھلانگ لگا دی لیکن جمشید ٹرین کی زد میں آ گیا‘ انجن نے اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیئے‘ جمشید کی موت نے نہ صرف اس کے والدین اور بہن بھائیوں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس کا پورا محلہ اس وقت نفسیاتی مریض بن چکا ہے‘ یہ نوجوان چلا گیا‘ یہ دفن ہوگیا‘ اس کی قبر کی مٹی بھی عنقریب سخت ہو جائے گی لیکن اس کے والدین‘ اس کے بہن بھائی اور اس کے دوست کبھی اس کا غم نہیں بھلا پائیں گے‘ وہ نوجوان وسیم جس نے اپنے سامنے اس کے جسم کے پرزے اڑتے دیکھے‘ یہ اب باقی زندگی کیسے نارمل گزارے گا‘ آپ خود فیصلہ کیجئے‘ اسی قسم کا ایک واقعہ 21 نومبر کو فیصل آباد میں بھی پیش آیا‘ فیصل آباد کے چند نوجوانوں نے شرط لگائی‘ ہم میں سے کون زیادہ دیر تک ریل کی پٹڑی پرلیٹتا ہے‘ شرط لگ گئی‘ سوشل میڈیا پر اعلان کر دیا گیا اور وقت طے ہو گیا‘ نوجوان وقت مقررہ پر آئے اور ریل کی پٹڑی پر لیٹ گئے‘ ٹرین آئی اور تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگی‘ یہ ٹرین جب تھوڑی دور رہ گئی تو تمام دوست اٹھ کر بھاگ گئے لیکن 19 سال کا ظہیر لیٹا رہا‘ اس کے دوست اس کو پکارتے رہے لیکن اس کا کہنا تھا‘ ٹرین ابھی بہت دور ہے‘ یہ بحث جاری تھی کہ ٹرین آئی اور ظہیر کے اوپر سے گزر گئی اور وہ جیتے جاگتے نوجوان سے قیمے کی ڈھیری بن گیا‘ یہ بچہ انجینئرنگ کا طالب علم تھا‘ اسی طرح چند ماہ قبل گجرات کے چند نوجوانوں نے نمک کھانے کی شرط لگائی‘ ایک نوجوان پاﺅ بھر نمک کھا گیا‘ یہ اب ہسپتال میں آخری سانسیں گن رہا ہے اور اس کی بیوہ ماں پاگل ہو کر ہسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہے‘ میں شوگر کا مریض ہوں‘ میں عموماً شوگر کے مریضوں سے ملتا رہتا ہوں‘ مجھے چند سال قبل شوگر کے دو انوکھے مریض ملے‘ ایک نوجوان پانچ سو روپے کی شرط جیتنے کےلئے روح افزاءکی پوری بوتل پی گیا تھا‘ یہ اس کے بعد سال بھر ہسپتالوں میں رہا‘ اس کی زندگی بچ گئی لیکن یہ شوگر کا خوفناک مریض بن گیا‘ یہ اب سسک سسک کر جی رہا ہے‘ اسی طرح ایک نوجوان شرط جیتنے کیلئے ایک کلو برفی کھا گیا‘ اس نے برفی کی شرط جیت لی لیکن شوگر کی شرط نہ جیت سکا‘ یہ اب تک شوگر کی وجہ سے اپنے پاﺅں اور دونوں گردوں سے محروم ہو چکا ہے‘ یہ اب مظلومیت اور اذیت کی خوفناک مثال ہے‘ لاہور میں میرے ایک جاننے والے کا بیٹا انرجی ڈرنک کی شرط جیت گیا‘ وہ بارہ ریڈبُل چڑھا گیا‘ دوستوں نے اس جیت پر تالیاں بجائیں‘ وہ داد سمیٹنے کےلئے کھڑا ہوا‘ اسے ہارٹ اٹیک ہوا‘ وہ گرا‘ تڑپا اور اس نے دوستوں کے سامنے جان دے دی‘ اسی طرح پچھلے دنوں چین میں بھی کسی نوجوان نے دس انرجی ڈرنک پی لئے تھے‘ اس کی طبیعت خراب ہو گئی‘ ہسپتال قریب تھا‘ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا‘ پتہ چلا اس کے دل کا سائز بڑا ہو رہا ہے‘ دل آدھ گھنٹے میں اتنا بڑا ہو گیا کہ ڈاکٹر دل کو گنجائش دینے کےلئے اس کی پسلیاں کاٹنے پر مجبور ہوگئے‘ یہ نوجوان آج بھی ہسپتال میں پڑا ہے‘ اس کا دل ننگا ہے اور دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے اس کے دل کو پھولتا اور سکڑتا دیکھتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔
آپ اگر اخبارات کو غور سے پڑھیں تو آپ کو ان میں روزانہ ایسی خبریں ملیں گی جن میں نوجوانوں نے شرط لگائی اور وہ عمارت کی منڈیر پر چلتے ہوئے گر کر مر گئے‘ ریل کی پٹڑی پر لیٹ کر جان سے گزر گئے‘ برسات میں چڑھے ہوئے دریا کو تیر کر پار کرنے کی کوشش کی اور پانی میں بہہ کر زندگی کی سرحد سے باہر نکل گئے‘ ون ویلنگ شروع کی‘ کسی انڈر پاس کے ستون سے ٹکرائے اور دماغ کنکریٹ سے چپک گیا‘ یا پھر چائے پینے‘ مٹھائی کھانے یا جیکٹ کو آگ لگا کر پانی میں کودنے کا مقابلہ ہوا اور ندگی دکھوں کی خوفناک داستان بن کر رہ گئی یا پھر رات کے وقت ریس لگائی‘ گاڑی بے قابو ہوئی‘ اپنی زندگی ختم ہوئی اور یہ والدین کو پوری زندگی رونے دھونے کےلئے پیچھے چھوڑ گئے‘ یہ بچے‘ یہ شرطیں لگانے والے بچے بہت ظالم ہیں‘ یہ نہ جانے اپنے والدین‘ اپنے بہن بھائیوں اور اپنے عزیز رشتے داروں سے کس جرم کا بدلہ لیتے ہیں‘ یہ ان کو کس گناہ کی سزا دیتے ہیں‘ کاش اس ملک میں کوئی ادارہ‘ کوئی عدالت شرط لگانے پر پابندی لگا دے‘ کوئی ادارہ جمشید پرویز اور ظہیر جیسے نوجوانوں کی کہانیوں کو سلیبس کاحصہ بنا دے‘ کاش تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ہی عبرت کا نشان بننے والے ان نوجوانوں کی تصویریں لیں‘ ان کی کہانیاں لکھیں اور کالج اور سکول کی دیواروں پر لگا دے تا کہ دوسرے طالب علموں کو عبرت ہو اور یہ اس قسم کی غلطی نہ کریں‘ میری جمشید اور ظہیر جیسے نوجوانوں کے والدین سے بھی درخواست ہے‘ آپ بھی مختلف تعلیمی اداروں میں جائیں‘ طالب علموں کو اپنے بیٹے کی کہانی سنائیں اور ان کو مشورہ دیں ”بیٹا آپ اپنی زندگی کی حفاظت کریں کیونکہ آپ تو چلے جائیں گے لیکن آپ کے بعد آپ کے والدین‘ آپ کے بہن بھائیوں کی زندگی قبرستان بن جائے گی‘ یہ لوگ باقی زندگی آپ کا تابوت اٹھا کر گزاریں گے‘ آپ ٹرین کی پٹڑی پر لیٹیں یا پھر چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنائیں مگر یہ یاد رکھیں‘ آپ کی اس حماقت‘ آپ کی اس غلطی کا تاوان آپ کی ماں پوری زندگی آہوں اور سسکیوں میں ادا کرے گی“ شاید آپ کے یہ لفظ سینکڑوں ہزاروں والدین کو اس غم سے بچا لیں جس کا علاج ٹونی روبنز جیسے لوگوں کے پاس بھی نہیں‘ شاید‘ شاید‘ آپ کی ایک وزٹ آپ کے مرحوم بچے کے کلاس فیلوز کو بچا لے۔
مجھے ایک بار ٹونی روبنز کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ انٹرویو لینے والے نے پوچھا ”دنیا کا کون سا دکھ‘ کون سا نقصان ہے جس کا علاج ٹونی روبنز کے پاس نہیں“ ٹونی روبنز نے ہنس کر جواب دیا ”اولاد کا دکھ“ انٹرویو لینے والا خاموشی سے دیکھتا رہا‘ ٹونی نے لمبی سانس لی اور بولا ” میں لوگوں کو ہر قسم کے دکھ سے نکال لیتا ہوں لیکن میں آج تک ان والدین کا علاج نہیں کر سکا جنہوں نے کسی حادثے‘ کسی ان ہونی یا کسی بیماری میں اپنا بچہ کھو دیا ہو“ ٹونی کا کہنا تھا ”اولاد بالخصوص جوان اولاد کا نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے‘ دنیا کے کسی شخص کے پاس اس نقصان کا کوئی علاج موجود نہیں“ ٹونی روبنز کے الفاظ نے مجھے حیران کر دیا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ کسی عام انسان کا اعتراف نہیں تھا‘ یہ دنیا کے ایک بڑے موٹی ویشنل سپیکر کا اعتراف تھا چنانچہ میں اسے مسترد نہیں کر سکتا تھا‘ ٹونی کی بات غلط نہیں تھی‘ اولاد انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے‘ ہم اپنی زیادہ تر کمزوریوں پر قابو پا لیتے ہیں لیکن ہم سرتوڑ کوشش کے باوجود اولاد کی کمزوری سے باہر نہیں نکل پاتے‘ آپ اگر والد یا والدہ ہیں تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ بچے یا بچی کی موت انسان کو کہاں کہاں سے زخمی کرتی ہے اور انسان پھر ان زخموں کے ساتھ کیسے زندگی گزارتا ہے؟ زندگی کا ایک عمل ہے‘ انسان پیدا ہوتا ہے‘ پڑھتا ہے‘ بڑا ہوتا ہے‘ کیریئر بناتا ہے‘ شادی کرتا ہے‘ بچے پیدا کرتا ہے‘ ان کی پرورش کرتا ہے‘ ان کی شادیاں کرتا ہے اور پھر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے‘ یہ عمل اگر اسی طرح چلتا رہے تو کوئی ایشو‘ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر کسی والد یا والدہ کو ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں اپنے کسی بچے کی لاش اٹھانی پڑ جائے‘ اس کا جنازہ پڑھنا پڑ جائے یا اس کی تدفین کرنی پڑ جائے تو آپ خود اندازہ کیجئے‘ ان بے چاروں پر کیا گزرے گی‘ اولاد کا غم بہت خوفناک ہوتا ہے‘ یہ چند گھنٹوں میں انسان کی ہڈیاں سُکیڑ دیتا ہے‘ والد 36 انچ کی پتلون پہن کر قبرستان جاتا ہے اور جب بچے کی تدفین کے بعد گھر لوٹتا ہے تو اس کی کمر 34 انچ ہو چکی ہوتی ہے‘ آپ اپنے اردگرد دیکھیں‘ آپ کو ایسے درجنوں لوگ ملیں گے جن کے سر پر بچے کی موت کا تودا گرا اور اس کے بعد ان لوگوں نے باقی عمر زندگی کا ماتم کرتے کرتے گزاری‘ وہ زندگی کا مرثیہ بن کر رہ گئے‘ موت برحق ہے‘ یہ آ کر رہتی ہے‘ دنیا میں جو بھی وجود ایک بار سانس لیتا ہے‘ اس کو موت کا ذائقہ ضرور چکھنا پڑتا ہے‘ خواہ وہ دیوتا ہو یا نبی‘ ولی ہو یا بادشاہ‘ ہم نے بھی مر جانا ہے اور ہماری آل اولاد نے بھی‘ یہ حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت اگر اس حد تک رہے تو کوئی مضائقہ نہیں‘ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اولاد موت کو خود دعوت دیتی ہے‘ یہ جان بوجھ کر ایسی ”ون ویلنگ“ کرتی ہے جس کے آخر میں موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ وہ موت ہے جو والدین کو عمر بھر زندہ نہیں رہنے دیتی۔
آپ راولپنڈی کی مثال لے لیجئے‘ ہمارے شہر میں چند دن قبل جمشید پرویز نام کا ایک 22 سالہ نوجوان چلتی ٹرین کے سامنے سیلفی بناتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا‘ یہ نوجوان ڈھوک رتہ کا رہنے والا تھا‘ طالب علم تھا‘ عمر 22سال تھی‘ نوجوان کا والد ریلوے میں درجہ چہارم کا ملازم ہے‘ جمشید تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک جنرل سٹور پر 150 روپے دیہاڑی پر کام بھی کرتا ہے‘ جمشید کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں‘ یہ 15 دسمبر کو اپنے کلاس فیلو وسیم کے ساتھ کالج سے واپس آ رہا تھا‘ یہ دونوں مریڑھ چوک میں پہنچے تو ان کے دماغ میں ایک عجیب شیطانی خیال آیا‘ یہ پل پر چڑھے اور ریل کی پٹڑی پر چلنے لگے‘ سامنے سے ٹرین آرہی تھی‘ جمشید نے چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنانے کا فیصلہ کیا‘ دوست وسیم اس کو سمجھاتا رہ گیا لیکن جمشید نے موبائل نکالا‘ وسیم کو ساتھ کھڑا کیا اور سیلفی بنانے میں مصروف ہو گیا‘ ٹرین کی رفتار تیز تھی‘ وہ سیلفی سے پہلے ان تک پہنچ گئی‘ وسیم نے چھلانگ لگا دی لیکن جمشید ٹرین کی زد میں آ گیا‘ انجن نے اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیئے‘ جمشید کی موت نے نہ صرف اس کے والدین اور بہن بھائیوں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس کا پورا محلہ اس وقت نفسیاتی مریض بن چکا ہے‘ یہ نوجوان چلا گیا‘ یہ دفن ہوگیا‘ اس کی قبر کی مٹی بھی عنقریب سخت ہو جائے گی لیکن اس کے والدین‘ اس کے بہن بھائی اور اس کے دوست کبھی اس کا غم نہیں بھلا پائیں گے‘ وہ نوجوان وسیم جس نے اپنے سامنے اس کے جسم کے پرزے اڑتے دیکھے‘ یہ اب باقی زندگی کیسے نارمل گزارے گا‘ آپ خود فیصلہ کیجئے‘ اسی قسم کا ایک واقعہ 21 نومبر کو فیصل آباد میں بھی پیش آیا‘ فیصل آباد کے چند نوجوانوں نے شرط لگائی‘ ہم میں سے کون زیادہ دیر تک ریل کی پٹڑی پرلیٹتا ہے‘ شرط لگ گئی‘ سوشل میڈیا پر اعلان کر دیا گیا اور وقت طے ہو گیا‘ نوجوان وقت مقررہ پر آئے اور ریل کی پٹڑی پر لیٹ گئے‘ ٹرین آئی اور تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگی‘ یہ ٹرین جب تھوڑی دور رہ گئی تو تمام دوست اٹھ کر بھاگ گئے لیکن 19 سال کا ظہیر لیٹا رہا‘ اس کے دوست اس کو پکارتے رہے لیکن اس کا کہنا تھا‘ ٹرین ابھی بہت دور ہے‘ یہ بحث جاری تھی کہ ٹرین آئی اور ظہیر کے اوپر سے گزر گئی اور وہ جیتے جاگتے نوجوان سے قیمے کی ڈھیری بن گیا‘ یہ بچہ انجینئرنگ کا طالب علم تھا‘ اسی طرح چند ماہ قبل گجرات کے چند نوجوانوں نے نمک کھانے کی شرط لگائی‘ ایک نوجوان پاﺅ بھر نمک کھا گیا‘ یہ اب ہسپتال میں آخری سانسیں گن رہا ہے اور اس کی بیوہ ماں پاگل ہو کر ہسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہے‘ میں شوگر کا مریض ہوں‘ میں عموماً شوگر کے مریضوں سے ملتا رہتا ہوں‘ مجھے چند سال قبل شوگر کے دو انوکھے مریض ملے‘ ایک نوجوان پانچ سو روپے کی شرط جیتنے کےلئے روح افزاءکی پوری بوتل پی گیا تھا‘ یہ اس کے بعد سال بھر ہسپتالوں میں رہا‘ اس کی زندگی بچ گئی لیکن یہ شوگر کا خوفناک مریض بن گیا‘ یہ اب سسک سسک کر جی رہا ہے‘ اسی طرح ایک نوجوان شرط جیتنے کیلئے ایک کلو برفی کھا گیا‘ اس نے برفی کی شرط جیت لی لیکن شوگر کی شرط نہ جیت سکا‘ یہ اب تک شوگر کی وجہ سے اپنے پاﺅں اور دونوں گردوں سے محروم ہو چکا ہے‘ یہ اب مظلومیت اور اذیت کی خوفناک مثال ہے‘ لاہور میں میرے ایک جاننے والے کا بیٹا انرجی ڈرنک کی شرط جیت گیا‘ وہ بارہ ریڈبُل چڑھا گیا‘ دوستوں نے اس جیت پر تالیاں بجائیں‘ وہ داد سمیٹنے کےلئے کھڑا ہوا‘ اسے ہارٹ اٹیک ہوا‘ وہ گرا‘ تڑپا اور اس نے دوستوں کے سامنے جان دے دی‘ اسی طرح پچھلے دنوں چین میں بھی کسی نوجوان نے دس انرجی ڈرنک پی لئے تھے‘ اس کی طبیعت خراب ہو گئی‘ ہسپتال قریب تھا‘ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا‘ پتہ چلا اس کے دل کا سائز بڑا ہو رہا ہے‘ دل آدھ گھنٹے میں اتنا بڑا ہو گیا کہ ڈاکٹر دل کو گنجائش دینے کےلئے اس کی پسلیاں کاٹنے پر مجبور ہوگئے‘ یہ نوجوان آج بھی ہسپتال میں پڑا ہے‘ اس کا دل ننگا ہے اور دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے اس کے دل کو پھولتا اور سکڑتا دیکھتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔
آپ اگر اخبارات کو غور سے پڑھیں تو آپ کو ان میں روزانہ ایسی خبریں ملیں گی جن میں نوجوانوں نے شرط لگائی اور وہ عمارت کی منڈیر پر چلتے ہوئے گر کر مر گئے‘ ریل کی پٹڑی پر لیٹ کر جان سے گزر گئے‘ برسات میں چڑھے ہوئے دریا کو تیر کر پار کرنے کی کوشش کی اور پانی میں بہہ کر زندگی کی سرحد سے باہر نکل گئے‘ ون ویلنگ شروع کی‘ کسی انڈر پاس کے ستون سے ٹکرائے اور دماغ کنکریٹ سے چپک گیا‘ یا پھر چائے پینے‘ مٹھائی کھانے یا جیکٹ کو آگ لگا کر پانی میں کودنے کا مقابلہ ہوا اور ندگی دکھوں کی خوفناک داستان بن کر رہ گئی یا پھر رات کے وقت ریس لگائی‘ گاڑی بے قابو ہوئی‘ اپنی زندگی ختم ہوئی اور یہ والدین کو پوری زندگی رونے دھونے کےلئے پیچھے چھوڑ گئے‘ یہ بچے‘ یہ شرطیں لگانے والے بچے بہت ظالم ہیں‘ یہ نہ جانے اپنے والدین‘ اپنے بہن بھائیوں اور اپنے عزیز رشتے داروں سے کس جرم کا بدلہ لیتے ہیں‘ یہ ان کو کس گناہ کی سزا دیتے ہیں‘ کاش اس ملک میں کوئی ادارہ‘ کوئی عدالت شرط لگانے پر پابندی لگا دے‘ کوئی ادارہ جمشید پرویز اور ظہیر جیسے نوجوانوں کی کہانیوں کو سلیبس کاحصہ بنا دے‘ کاش تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ہی عبرت کا نشان بننے والے ان نوجوانوں کی تصویریں لیں‘ ان کی کہانیاں لکھیں اور کالج اور سکول کی دیواروں پر لگا دے تا کہ دوسرے طالب علموں کو عبرت ہو اور یہ اس قسم کی غلطی نہ کریں‘ میری جمشید اور ظہیر جیسے نوجوانوں کے والدین سے بھی درخواست ہے‘ آپ بھی مختلف تعلیمی اداروں میں جائیں‘ طالب علموں کو اپنے بیٹے کی کہانی سنائیں اور ان کو مشورہ دیں ”بیٹا آپ اپنی زندگی کی حفاظت کریں کیونکہ آپ تو چلے جائیں گے لیکن آپ کے بعد آپ کے والدین‘ آپ کے بہن بھائیوں کی زندگی قبرستان بن جائے گی‘ یہ لوگ باقی زندگی آپ کا تابوت اٹھا کر گزاریں گے‘ آپ ٹرین کی پٹڑی پر لیٹیں یا پھر چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنائیں مگر یہ یاد رکھیں‘ آپ کی اس حماقت‘ آپ کی اس غلطی کا تاوان آپ کی ماں پوری زندگی آہوں اور سسکیوں میں ادا کرے گی“ شاید آپ کے یہ لفظ سینکڑوں ہزاروں والدین کو اس غم سے بچا لیں جس کا علاج ٹونی روبنز جیسے لوگوں کے پاس بھی نہیں‘ شاید‘ شاید‘ آپ کی ایک وزٹ آپ کے مرحوم بچے کے کلاس فیلوز کو بچا لے۔
Rich DAD POOR DAD THE BEST STORY
وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘ والد ٹھیکیدار تھا‘ جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے‘ سڑکیں بنیں‘ ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں‘ والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا‘ پھر سندھ میں سکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا‘ یہ کام کام نہیں تھے‘ یہ سونے کی کانیں تھیں‘ والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا‘ وہ سمجھ دار آدمی تھا‘ اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا‘ لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی‘ والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی‘ یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر سکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے‘ یہ لوگ اس وقت ہوائی جہازوں میں سفر کرتے تھے جب بحری جہاز بیرون ملک اور ٹرینیں اور بسیں اندرون ملک سفر کا ذریعہ تھیں‘ پانچ بچوں کے ذاتی بینک اکاﺅنٹ بھی تھے‘ یہ جب چاہتے تھے اور جتنے چاہتے تھے بینک سے پیسے نکال لیتے تھے‘ دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے‘ یہ لوگ شراب‘ شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود ونمائش کے ذریعے اللہ کے دیئے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا‘ دولت نے اسے خراب نہیں کیا‘ وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا‘ بچے بھی بہت اچھے تھے‘ یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے‘ یہ جب تک آپس میں مل نہیں لیتے تھے‘ یہ سونے کےلئے بیڈ روم میں نہیں جاتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن‘ سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ حالات نے پلٹا کھایا‘ خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں‘ کچہریوں اورو کیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری‘ کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا‘ ان کا والد 1972ءمیں اچانک فوت ہو گیا‘ والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کئے گئے‘ پتہ چلا والد نے کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی‘ فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔ جائیداد کی تقسیم پہلا تنازعہ تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنہیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی‘ یہ تنازعہ بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا‘ پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کےلئے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے‘ یہ مقدمے اب تک چل رہے ہیں‘ ان 43 برسوں میں ان کی شادیاں ہوئیں‘ ان کے بچے ہوئے‘ ان کے بچوںکی شادیاں ہوئیں‘ ماں کا انتقال ہوا‘ دو بھائیوں کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ایک بہن ایکسیڈنٹ میں ٹانگوں سے محروم ہو گئی لیکن یہ لوگ اکٹھے نہیں ہوئے‘ انہوں نے ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھا‘ جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے‘ اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔
آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں‘ ان کا والد تھا‘ وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کےلئے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا‘ یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین‘ جائیداد‘ ملیں اور رقم تھی جس نے 43 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا‘ جس نے انہیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجئے‘ ظالم اور لالچی کون تھا‘ بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے‘ آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمہ دار قرار دیں گے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں‘ آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کےلئے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے‘ جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کےلئے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی‘ ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کےلئے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے‘ ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی‘ بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن‘ بھائی‘ بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کےلئے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا‘ والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے‘ جو اپنی اولاد کےلئے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے‘ یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے‘ اتنا کھاتے رہے‘ کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری‘ گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا‘ ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت‘ تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی‘ اپنی اولاد کو خود سکول چھوڑ کر آئے‘ ان کےلئے کتابیں خریدیں‘ ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی‘ کرکٹ کھیلی‘ ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا‘ قہقہے لگائے‘ لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا‘ یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازعہ پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا‘ آپ کبھی ملک میں ”کزن میرجز“ پر بھی تحقیق کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ”کزن میرج“ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے‘ والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اورجب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جبکہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے‘ یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجئے۔میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا‘ آپ بھی سروے کریں‘ آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراﺅنڈ دیکھیں‘ آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا‘ والد غریب تھا‘ وہ لوہا کوٹتا تھا‘ وہ موچی‘ کسان‘ سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا‘ وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا‘ وہ مزارعہ تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا‘ مل مالک‘ اعلیٰ افسر‘ جرنیل‘ سائنس دان یا اداکار ہو گیا‘ آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی‘ غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے‘ یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے‘ میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے‘ آپ کو آپ کے ناکام اورغریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا‘ آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے‘ میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں‘ وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے‘ آپ شاید کتابوں‘ سپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا‘ یہ حوصلہ‘ سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی‘ ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا‘ وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کی بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی‘ یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا‘ یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے‘ انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے‘ تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے‘ تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں‘ زندگی میں اگر سختی‘ غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن‘ آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ مائیکل اینجلو‘ مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں‘ یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں‘ آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی‘ غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔
(نوٹ: میرے پچھلے کالم ”گڈ بائی شجاعت عظیم“ میں دو خامیاں رہ گئیں‘ اول وزیراعظم نے شجاعت عظیم کا استعفیٰ مسترد کر دیا ہے‘ یہ تاحال اپنے عہدے پر موجود ہیں اور سپریم کورٹ کے حتمی حکم تک موجود رہیںگے‘ دوم‘ شجاعت عظیم کبھی سول ایوی ایشن کے ڈی جی نہیں رہے‘ یہ میری غلطی ہے‘ قارئین نوٹ فرما لیں)
سٹوری آف لائف
یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔ پیٹر کی عمر آٹھ سال تھی‘ وہ مشرقی یورپ کے کسی چھوٹے سے گاﺅں میں رہتا تھا‘ والدین زمیندار اور خوش حال تھے‘ پیٹر ان کی اکلوتی اولاد تھا‘ وہ خوبصورت بھی تھا‘ ذہین بھی اور مہذب بھی۔ خاندان سے لے کر گاﺅں کے بچوں‘ لڑکوں اور بوڑھوں تک سب اس سے خوش تھے‘ وہ سکول میں ہردل عزیز تھا‘ ساتھی طالب علم بھی اسے پسند کرتے تھے اور وہ اساتذہ کا بھی پسندیدہ سٹوڈنٹ تھا‘ وہ ہمیشہ ہوم ورک کر کے سکول آتا تھا‘ وہ کھیل‘ کلاس ورک اور مطالعہ تینوں میں لاجواب تھا‘ گویا پیٹر گاﺅں کا بے مثال بچہ تھا‘ بس اس میں ایک خرابی تھی‘ وہ خرابی کیا تھی؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں‘ یہ صرف پیٹر کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ہم سب کی کہانی ہے‘ ہم سب کسی نہ کسی سطح پر پیٹر ہیں اور ہم پیٹر کی اس کہانی سے ہوتے ہوئے بہت جلد اپنی ذات میں چھپے پیٹر تک پہنچ جائیں گے چنانچہ یہ کہانی پیٹر کے ساتھ ساتھ ہماری کہانی بھی ہے‘ اللہ دتہ‘ محمد معراج الدین‘ ظفر اقبال اور محمد آصف کی کہانی۔ یہ کہانی ہماری کہانی کیسے ہے؟ہمیں یہ جاننے کےلئے پہلے پیٹر کی کہانی سننا ہو گی۔
پیٹر میں بس ایک خرابی تھی‘ وہ ”ڈے ڈریمنگ“ کا شکار تھا‘ وہ بیٹھے بیٹھے کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتا تھا‘ وہ لمحہ موجود میں زندہ نہیں رہتا تھا‘ وہ وقت کو کبھی آگے لے جاتا تھا اور کبھی پیچھے۔ وہ اکثر اوقات کلاس میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں بیس سال کا خوبصورت جوان بن جاتا تھا‘ وہ خود کو گھوڑے پر بیٹھا ہوا دیکھتا‘ گھوڑے کو ایڑھ لگاتا اور اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگتا‘ پیٹر خیالوں کی دنیا میں سفر کرتا ہوا کبھی جنگیں لڑتا‘ کبھی شہزادی کے محل میں پہنچ جاتا‘ کبھی کسی ملکہ کو اغواءکر کے گھوڑے پر بٹھاتا‘ گھوڑے کو وادیوں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں اور میدانوں میں دوڑاتا اور دشمنوں کے گھوڑوں کو اپنے پیچھے بھاگتا ہوا محسوس کرتا‘ وہ کبھی خیالوں کی دنیا میں پولو کے میچ کھیلتا‘ کبھی تاجر بن کر منڈی میں اترتا‘ کبھی جہاز ران بن کر سمندر کی لہروں سے لڑتا‘ کبھی اس کا بحری جہاز کسی بے آب و گیاہ اجنبی جزیرے پر رک جاتا اور وہ باقی زندگی رابن سن کروسو بن کر گزار دیتا‘ وہ کبھی ویگا بانڈ بن جاتا اور کبھی رابن ہڈ بن کر امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے لگتا‘ وہ کبھی بوڑھا کنگ لیئر بن جاتا اور محسوس کرتا‘ وہ بیمار بوڑھا بادشاہ ہے‘ وہ موت کے بستر پر لیٹ کر آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کی شہزادیاں اور شہزادے وصیت سننے کےلئے اس کے گرد کھڑے ہیں اور وہ کبھی کبھی خود کو پوپ بھی محسوس کرنے لگتا‘ وہ سمجھتا وہ ویٹی کن سٹی میں پوپ کی بالکونی میں کھڑا ہے اور پوری دنیا بالکونی کے نیچے کھڑی ہو کر اس کی زیارت کر رہی ہے‘ وہ وقت کو آگے اور پیچھے لے جانے والے اس کھیل کو بہت انجوائے کرتا تھا‘ وہ گھنٹوں بیٹھ کر یہ کھیل کھیلتا تھا‘ دنیا میں اس کھیل میں اس سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں تھا‘ وہ کلاس روم میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں کھیل کے میدان میں بھی چلا جاتا تھا‘ وہ کھیل کے دوران خود کو دنیا کا کامیاب ترین کھلاڑی بھی محسوس کرتا تھا اور وہ واش روم میں کموڈ پر بیٹھ کر اپنے فارم ہاﺅس میں کاشتکاری بھی شروع کر دیتا تھا‘ پیٹر ایک شاندار بچہ تھا‘ بس اس میں صرف یہ خرابی تھی‘ وہ ذہنی طور پر وہاں موجود نہیں ہوتا تھا جہاں وہ جسمانی طور پر ہوتا تھا‘ اس کا جسم اور اس کا ذہن ہر وقت دو الگ الگ دنیاﺅں میں رہتے تھے‘ وہ وہاں نہیں رہتا تھا جہاں اسے رہنا چاہیے تھا‘ پیٹر کی خواہش تھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے وقت کو کنٹرول کرنا سیکھ لے‘ وہ جب چاہے وقت کو آگے لے جائے اور جب چاہے وقت کو ری ورس کر لے‘ وہ ہمہ وقت یہ خواہش لے کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔
آپ اللہ کی کرنی دیکھئے‘ پیٹر ایک دن جنگل سے گزر رہا تھا‘ پیٹر کو ٹھوکر لگی‘ وہ گرا اور بے ہوش ہو گیا‘ آنکھ کھلی تو اس نے ایک بڑھیا کو اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا‘ یہ بڑھیا وقت تھی‘ وقت نے پیٹر سے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی‘ پیٹر نے کہا ”میں چاہتا ہوں‘ میں جب چاہوں‘ میں وقت کو آگے پیچھے لے جا سکوں“ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”بے وقوف بچے! وقت دریا ہے‘ یہ آگے کی طرف بہتا ہے‘ یہ پیچھے نہیں جاتا‘ میں تمہیں صرف وقت میں‘ صرف آگے بہنے کا طریقہ بتا سکتی ہوں“ پیٹر مان گیا‘ بڑھیا نے اسے ایک گیند دی‘ گیند سے ایک دھاگہ باہر لٹک رہا تھا‘ بڑھیا نے اسے بتایا‘ یہ دھاگہ تمہاری زندگی جتنا طویل ہے‘ تم اس دھاگے کو جتنا باہر کھینچ لو گے‘ تم وقت میں اتنا ہی آگے چلے جاﺅ گے‘ پیٹر خوش ہو گیا‘ بڑھیا چلی گئی‘ پیٹر نے تھوڑا سا دھاگہ کھینچا‘ ٹرررر‘ ٹرررز کی آواز آئی اور پیٹر دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب اٹھارہ سال کا خوبصورت جوان تھا‘ وہ جوانی کی ایڑھیوں پر چلتا تھا اور شہر کی حسین خواتین بالکونی میں کھڑی ہو کر اسے دیکھتی تھیں‘ پیٹر جوانی کو انجوائے کرنے لگا‘ وہ دن کے وقت گلیوں میں گھوڑے دوڑاتا‘ شامیں شراب خانوں اور رقص گاہوں میں گزارتا اور راتیں گاﺅں کے اشرافیہ کے ہاں۔ پیٹر نے دیکھا‘ اس کے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں‘ گاﺅں کے سمجھ دار اور سیانے لوگ انتقال کر چکے ہیں اور گاﺅں کا سائز بڑا ہو چکا ہے‘ پیٹر چند ماہ اس ٹائم فریم میں رہا‘ اکتاہٹ ہوئی تو اس نے صندوق سے گیند نکالا اور دھاگہ کھینچ دیا‘ وہ مزید دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 28 سال کا جوان تھا‘ کھلنڈرے پن کی عمر گزر چکی تھی‘ وہ اب زندگی میں سیٹل ہونا چاہتا تھا‘ والدین بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور بیمار بھی۔ زمینیں بک رہی تھیں‘ گھوڑے نیلام ہو رہے تھے اور جمع پونجی خرچ ہو رہی تھی‘ ماں کی کمر کا درد شدید ہوتا جا رہا تھا‘ وہ اب چلنے پھرنے سے بھی معذور تھی‘ والد کو دل کے امراض نے گھیر لیا تھا‘ ملازم ملازمت چھوڑ کر جا رہے تھے‘ پیٹر نے ملازمت کی کوشش کی لیکن وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا‘ کاروباری کوشش کی لیکن ناتجربہ کاری‘ سستی اور لاابالی پن سے مار کھا گیا اور سیاست میں قدم رکھا مگر اس میں بھی فیل ہو گیا‘ غیر سنجیدہ ماضی کی وجہ سے دوست احباب بھی ساتھ چھوڑ رہے تھے‘ وہ اب گاﺅں میں مارا مارا پھرتا تھا اور اپنی بے مقصد زندگی کو کوستا تھا‘ پیٹر چند دن میں زندگی کے اس فیز سے بھی اکتا گیا‘ اس نے گیند نکالی‘ دھاگہ کھینچا اور 38 سال کا ہو گیا‘ اس کی زندگی اب سیٹل ہو چکی تھی‘ سرکے بال کم ہو گئے تھے‘ کنپٹیاں سفید ہو رہی تھیں‘ گردن کے پچھلے مہروں میں اب ہلکی ہلکی درد رہتی تھی‘ محلے کی لڑکی ریٹا سے شادی بھی ہو چکی تھی اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے‘ ماں دو برس قبل انتقال کر گئی‘ باپ معذور ہوچکا تھا اور وہ اب سارا سارا دن وہیل چیئر پر بیٹھا رہتا تھا‘ بڑی حویلی اور فارم ہاﺅس بک چکے تھے‘ وہ اب چھوٹے گھر میں رہتے تھے‘ بیوی اچار چٹنیاں بناتی تھی اور وہ بازار میں بیچ دیتا تھا‘ شام کے وقت گاﺅں کے پب میں بیٹھ جاتا تھا اور بس یہ تھی زندگی۔
پیٹر نے گھبرا کر زور سے دھاگہ کھینچ دیا‘ وہ اس بار بیس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 58 برس کا تھا‘ بچے جوان ہو کر شہر جا چکے تھے‘ گھر مزید چھوٹا ہو گیا تھا‘ بیوی ریٹا کے گردے فیل ہو چکے تھے‘ وہ پیٹ پر بیگ لگا کرزندگی گزار رہی تھی‘ محلے کے تمام پرانے لوگ مر چکے تھے‘ گاﺅں قصبہ بن گیا تھا اور اس میں ہر وقت شور ہوتا رہتا تھا‘ وہ باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے اپنے کولہے کی ہڈی بھی تڑوا چکا تھا‘ ہڈی جڑ گئی لیکن اس کی چال میں جھول آ گیا‘ وہ اب چلتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہلکا سا جھکتا تھا‘ بڑا بیٹا شہر سے پیسے بھجوا دیتا تو دونوں میاں بیوی تین وقت کھانا کھا لیتے تھے‘ پیسے نہیں آتے تھے تو وہ آلو ابال کر کھا لیتے تھے‘ گھر میں سرے شام اندھیرا ہو جاتا تھااور اس کے بعد وہاں دونوں میاں بیوی کی کھانسی کی آوازیں ہوتی تھیں‘ وہ دونوں کھانس کھانس کر رات گزار دیتے تھے‘ پیٹر لائف کے اس فیز سے بھی گھبرا گیا‘ اس نے گیند نکالی اور دھاگہ کھینچ دیا‘ وہ اب 68 سال کا ہو چکا تھا‘ بیوی فوت ہو چکی تھی‘ مکان بک گیا تھا‘ وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا‘ تمام دوست‘ احباب‘ رشتے دار مر چکے تھے‘ ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی تھی اور ٹیلی ویژن انٹرنیٹ میں تبدیل ہو رہا تھا‘ پیٹر کے پھیپھڑوں میں اب پانی بھی بھر جاتا تھا اور حلق میں بلغم بھی آتی تھی‘ وہ چلنے پھرنے سے بھی تقریباً معذور ہو چکا تھا‘ وہ چند قدم اٹھاتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تھا‘ بھوک نہیں لگتی تھی اور اگر لگتی تھی تو کھانا نہیں ملتا تھا‘ کھانا مل جاتا تو دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھا نہیں پاتا تھا اور اگر وہ کھانا کھا لیتا تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور اگر کھانا ہضم ہو جاتا تو قبض ہو جاتی تھی اور قبض بھوک سے زیادہ اذیت ناک ہوتی تھی‘ زندگی خوفناک بلکہ عبرتناک صورتحال اختیار کر چکی تھی‘ پیٹر سارا سارا دن ریلوے سٹیشن پر بیٹھا رہتا تھا‘ وہ کتابیں پڑھنا چاہتا تھا لیکن نظر کی کمزوری آڑے آ جاتی تھی‘ وہ میوزک سننا چاہتا تھا لیکن کان کام نہیں کرتے تھے‘ وہ ماضی کو یاد کرنا چاہتا تھا لیکن یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی‘ باتیں‘ واقعات اور چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی تھی‘ پیٹر نے ایک دن ریلوے سٹیشن پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے پوچھا ” پیٹر! تمہاری زندگی کا شاندار ترین وقت کون سا تھا“ اس کے دماغ میں فوراً آٹھ سال کے پیٹر کی تصویر ابھری‘ اسے محسوس ہوا‘ اس کی زندگی کا شاندار ترین وقت وہ تھا‘ جب وہ کھیتوں‘ جنگلوں اور وادیوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور اندیشوں اور آلام کے سایوں نے ابھی جنم نہیں لیا تھا‘ پیٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے آخری بار دھاگہ کھینچا‘ ٹک کی آواز آئی اور دھاگہ ٹوٹ گیا‘ وہ اب اپنی قبر کے سرہانے کھڑا تھا‘ قبر پرانی بھی تھی‘ بوسیدہ بھی اور ویران بھی۔ قبر اپنے حالات کے منہ سے بول رہی تھی‘ مجھے مدت سے کسی نے نہیں دیکھا‘ میرے سرہانے کوئی نہیں آیا‘ کسی نے مجھ پر ایک پھول تک قربان نہیں کیا‘ پیٹر نے ہچکی لی اور اس کی آنکھ کھل گئی‘ وہ اسی طرح جنگل میں بیٹھا تھا‘ ہاتھ میں گیند تھی اور بڑھیا اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔
پیٹر نے گیند بڑھیا کو واپس کی اور اس سے پوچھا ”وقت کیا ہے“ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور بولی ”وقت آج ہے‘ وقت لمحہ موجود ہے‘ آج سے پہلے افسوس تھا اور آج کے بعد حسرت ہو گی“ پیٹر نے پوچھا ”اور زندگی کیا ہے“ بڑھیا نے جواب دیا ”زندگی آج کو انجوائے کرنے کا نام ہے‘ آج کا دن‘ صرف آج کا دن‘ لمحہ موجود‘ جو لوگ آج میں بیٹھ کر گزرے کل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو آج میں بیٹھ کر مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں‘ ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا‘ انسان گزرے کل کو ٹھیک کر سکتا ہے اور نہ ہی آنے والے کل کو‘ یہ صرف آج کو ٹھیک کر سکتا ہے‘ یہ صرف آج کو درست رکھ سکتا ہے اور یہ صرف آج کو انجوائے کر سکتا ہے‘ تم آج آٹھ سال کے لڑکے ہو‘ تم اگلے سال نو سال کے ہو جاﺅ گے‘ تم اس کے بعد کچھ بھی کر لو تم آٹھ سال میں واپس نہیں آ سکو گے چنانچہ اٹھو اور آٹھ سال کو انجوائے کرو‘ خود کو خوابوں میں ضائع نہ کرو کیونکہ رابن سن کروسو ہو‘ رابن ہڈ ہو یا پھر کنگ لیئر ہو‘ ان سب کا اختتام بہرحال ویران قبروں پر ہوتا ہے‘ دنیا میں ماضی اور مستقبل دونوں مر جاتے ہیں‘ صرف آج زندہ رہتا ہے چنانچہ زندہ میں زندہ رہو‘ ہمیشہ زندہ رہو گے“ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور گیند سمیت غائب ہو گئی۔
پیٹر اٹھا اور وادی میں دوڑنے لگا‘ وہ اب آٹھویں سال کو انجوائے کر رہا تھا۔
پیٹر میں بس ایک خرابی تھی‘ وہ ”ڈے ڈریمنگ“ کا شکار تھا‘ وہ بیٹھے بیٹھے کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتا تھا‘ وہ لمحہ موجود میں زندہ نہیں رہتا تھا‘ وہ وقت کو کبھی آگے لے جاتا تھا اور کبھی پیچھے۔ وہ اکثر اوقات کلاس میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں بیس سال کا خوبصورت جوان بن جاتا تھا‘ وہ خود کو گھوڑے پر بیٹھا ہوا دیکھتا‘ گھوڑے کو ایڑھ لگاتا اور اس کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگتا‘ پیٹر خیالوں کی دنیا میں سفر کرتا ہوا کبھی جنگیں لڑتا‘ کبھی شہزادی کے محل میں پہنچ جاتا‘ کبھی کسی ملکہ کو اغواءکر کے گھوڑے پر بٹھاتا‘ گھوڑے کو وادیوں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں اور میدانوں میں دوڑاتا اور دشمنوں کے گھوڑوں کو اپنے پیچھے بھاگتا ہوا محسوس کرتا‘ وہ کبھی خیالوں کی دنیا میں پولو کے میچ کھیلتا‘ کبھی تاجر بن کر منڈی میں اترتا‘ کبھی جہاز ران بن کر سمندر کی لہروں سے لڑتا‘ کبھی اس کا بحری جہاز کسی بے آب و گیاہ اجنبی جزیرے پر رک جاتا اور وہ باقی زندگی رابن سن کروسو بن کر گزار دیتا‘ وہ کبھی ویگا بانڈ بن جاتا اور کبھی رابن ہڈ بن کر امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے لگتا‘ وہ کبھی بوڑھا کنگ لیئر بن جاتا اور محسوس کرتا‘ وہ بیمار بوڑھا بادشاہ ہے‘ وہ موت کے بستر پر لیٹ کر آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کی شہزادیاں اور شہزادے وصیت سننے کےلئے اس کے گرد کھڑے ہیں اور وہ کبھی کبھی خود کو پوپ بھی محسوس کرنے لگتا‘ وہ سمجھتا وہ ویٹی کن سٹی میں پوپ کی بالکونی میں کھڑا ہے اور پوری دنیا بالکونی کے نیچے کھڑی ہو کر اس کی زیارت کر رہی ہے‘ وہ وقت کو آگے اور پیچھے لے جانے والے اس کھیل کو بہت انجوائے کرتا تھا‘ وہ گھنٹوں بیٹھ کر یہ کھیل کھیلتا تھا‘ دنیا میں اس کھیل میں اس سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں تھا‘ وہ کلاس روم میں بیٹھ کر خیالوں ہی خیالوں میں کھیل کے میدان میں بھی چلا جاتا تھا‘ وہ کھیل کے دوران خود کو دنیا کا کامیاب ترین کھلاڑی بھی محسوس کرتا تھا اور وہ واش روم میں کموڈ پر بیٹھ کر اپنے فارم ہاﺅس میں کاشتکاری بھی شروع کر دیتا تھا‘ پیٹر ایک شاندار بچہ تھا‘ بس اس میں صرف یہ خرابی تھی‘ وہ ذہنی طور پر وہاں موجود نہیں ہوتا تھا جہاں وہ جسمانی طور پر ہوتا تھا‘ اس کا جسم اور اس کا ذہن ہر وقت دو الگ الگ دنیاﺅں میں رہتے تھے‘ وہ وہاں نہیں رہتا تھا جہاں اسے رہنا چاہیے تھا‘ پیٹر کی خواہش تھی وہ کسی نہ کسی طریقے سے وقت کو کنٹرول کرنا سیکھ لے‘ وہ جب چاہے وقت کو آگے لے جائے اور جب چاہے وقت کو ری ورس کر لے‘ وہ ہمہ وقت یہ خواہش لے کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔
آپ اللہ کی کرنی دیکھئے‘ پیٹر ایک دن جنگل سے گزر رہا تھا‘ پیٹر کو ٹھوکر لگی‘ وہ گرا اور بے ہوش ہو گیا‘ آنکھ کھلی تو اس نے ایک بڑھیا کو اپنے اوپر جھکے ہوئے پایا‘ یہ بڑھیا وقت تھی‘ وقت نے پیٹر سے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوچھی‘ پیٹر نے کہا ”میں چاہتا ہوں‘ میں جب چاہوں‘ میں وقت کو آگے پیچھے لے جا سکوں“ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”بے وقوف بچے! وقت دریا ہے‘ یہ آگے کی طرف بہتا ہے‘ یہ پیچھے نہیں جاتا‘ میں تمہیں صرف وقت میں‘ صرف آگے بہنے کا طریقہ بتا سکتی ہوں“ پیٹر مان گیا‘ بڑھیا نے اسے ایک گیند دی‘ گیند سے ایک دھاگہ باہر لٹک رہا تھا‘ بڑھیا نے اسے بتایا‘ یہ دھاگہ تمہاری زندگی جتنا طویل ہے‘ تم اس دھاگے کو جتنا باہر کھینچ لو گے‘ تم وقت میں اتنا ہی آگے چلے جاﺅ گے‘ پیٹر خوش ہو گیا‘ بڑھیا چلی گئی‘ پیٹر نے تھوڑا سا دھاگہ کھینچا‘ ٹرررر‘ ٹرررز کی آواز آئی اور پیٹر دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب اٹھارہ سال کا خوبصورت جوان تھا‘ وہ جوانی کی ایڑھیوں پر چلتا تھا اور شہر کی حسین خواتین بالکونی میں کھڑی ہو کر اسے دیکھتی تھیں‘ پیٹر جوانی کو انجوائے کرنے لگا‘ وہ دن کے وقت گلیوں میں گھوڑے دوڑاتا‘ شامیں شراب خانوں اور رقص گاہوں میں گزارتا اور راتیں گاﺅں کے اشرافیہ کے ہاں۔ پیٹر نے دیکھا‘ اس کے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں‘ گاﺅں کے سمجھ دار اور سیانے لوگ انتقال کر چکے ہیں اور گاﺅں کا سائز بڑا ہو چکا ہے‘ پیٹر چند ماہ اس ٹائم فریم میں رہا‘ اکتاہٹ ہوئی تو اس نے صندوق سے گیند نکالا اور دھاگہ کھینچ دیا‘ وہ مزید دس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 28 سال کا جوان تھا‘ کھلنڈرے پن کی عمر گزر چکی تھی‘ وہ اب زندگی میں سیٹل ہونا چاہتا تھا‘ والدین بوڑھے بھی ہو چکے تھے اور بیمار بھی۔ زمینیں بک رہی تھیں‘ گھوڑے نیلام ہو رہے تھے اور جمع پونجی خرچ ہو رہی تھی‘ ماں کی کمر کا درد شدید ہوتا جا رہا تھا‘ وہ اب چلنے پھرنے سے بھی معذور تھی‘ والد کو دل کے امراض نے گھیر لیا تھا‘ ملازم ملازمت چھوڑ کر جا رہے تھے‘ پیٹر نے ملازمت کی کوشش کی لیکن وہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ناکام رہا‘ کاروباری کوشش کی لیکن ناتجربہ کاری‘ سستی اور لاابالی پن سے مار کھا گیا اور سیاست میں قدم رکھا مگر اس میں بھی فیل ہو گیا‘ غیر سنجیدہ ماضی کی وجہ سے دوست احباب بھی ساتھ چھوڑ رہے تھے‘ وہ اب گاﺅں میں مارا مارا پھرتا تھا اور اپنی بے مقصد زندگی کو کوستا تھا‘ پیٹر چند دن میں زندگی کے اس فیز سے بھی اکتا گیا‘ اس نے گیند نکالی‘ دھاگہ کھینچا اور 38 سال کا ہو گیا‘ اس کی زندگی اب سیٹل ہو چکی تھی‘ سرکے بال کم ہو گئے تھے‘ کنپٹیاں سفید ہو رہی تھیں‘ گردن کے پچھلے مہروں میں اب ہلکی ہلکی درد رہتی تھی‘ محلے کی لڑکی ریٹا سے شادی بھی ہو چکی تھی اور اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے‘ ماں دو برس قبل انتقال کر گئی‘ باپ معذور ہوچکا تھا اور وہ اب سارا سارا دن وہیل چیئر پر بیٹھا رہتا تھا‘ بڑی حویلی اور فارم ہاﺅس بک چکے تھے‘ وہ اب چھوٹے گھر میں رہتے تھے‘ بیوی اچار چٹنیاں بناتی تھی اور وہ بازار میں بیچ دیتا تھا‘ شام کے وقت گاﺅں کے پب میں بیٹھ جاتا تھا اور بس یہ تھی زندگی۔
پیٹر نے گھبرا کر زور سے دھاگہ کھینچ دیا‘ وہ اس بار بیس سال آگے چلا گیا‘ وہ اب 58 برس کا تھا‘ بچے جوان ہو کر شہر جا چکے تھے‘ گھر مزید چھوٹا ہو گیا تھا‘ بیوی ریٹا کے گردے فیل ہو چکے تھے‘ وہ پیٹ پر بیگ لگا کرزندگی گزار رہی تھی‘ محلے کے تمام پرانے لوگ مر چکے تھے‘ گاﺅں قصبہ بن گیا تھا اور اس میں ہر وقت شور ہوتا رہتا تھا‘ وہ باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے اپنے کولہے کی ہڈی بھی تڑوا چکا تھا‘ ہڈی جڑ گئی لیکن اس کی چال میں جھول آ گیا‘ وہ اب چلتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہلکا سا جھکتا تھا‘ بڑا بیٹا شہر سے پیسے بھجوا دیتا تو دونوں میاں بیوی تین وقت کھانا کھا لیتے تھے‘ پیسے نہیں آتے تھے تو وہ آلو ابال کر کھا لیتے تھے‘ گھر میں سرے شام اندھیرا ہو جاتا تھااور اس کے بعد وہاں دونوں میاں بیوی کی کھانسی کی آوازیں ہوتی تھیں‘ وہ دونوں کھانس کھانس کر رات گزار دیتے تھے‘ پیٹر لائف کے اس فیز سے بھی گھبرا گیا‘ اس نے گیند نکالی اور دھاگہ کھینچ دیا‘ وہ اب 68 سال کا ہو چکا تھا‘ بیوی فوت ہو چکی تھی‘ مکان بک گیا تھا‘ وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا‘ تمام دوست‘ احباب‘ رشتے دار مر چکے تھے‘ ریڈیو کی جگہ ٹی وی نے لے لی تھی اور ٹیلی ویژن انٹرنیٹ میں تبدیل ہو رہا تھا‘ پیٹر کے پھیپھڑوں میں اب پانی بھی بھر جاتا تھا اور حلق میں بلغم بھی آتی تھی‘ وہ چلنے پھرنے سے بھی تقریباً معذور ہو چکا تھا‘ وہ چند قدم اٹھاتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تھا‘ بھوک نہیں لگتی تھی اور اگر لگتی تھی تو کھانا نہیں ملتا تھا‘ کھانا مل جاتا تو دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھا نہیں پاتا تھا اور اگر وہ کھانا کھا لیتا تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور اگر کھانا ہضم ہو جاتا تو قبض ہو جاتی تھی اور قبض بھوک سے زیادہ اذیت ناک ہوتی تھی‘ زندگی خوفناک بلکہ عبرتناک صورتحال اختیار کر چکی تھی‘ پیٹر سارا سارا دن ریلوے سٹیشن پر بیٹھا رہتا تھا‘ وہ کتابیں پڑھنا چاہتا تھا لیکن نظر کی کمزوری آڑے آ جاتی تھی‘ وہ میوزک سننا چاہتا تھا لیکن کان کام نہیں کرتے تھے‘ وہ ماضی کو یاد کرنا چاہتا تھا لیکن یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی‘ باتیں‘ واقعات اور چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی تھی‘ پیٹر نے ایک دن ریلوے سٹیشن پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے پوچھا ” پیٹر! تمہاری زندگی کا شاندار ترین وقت کون سا تھا“ اس کے دماغ میں فوراً آٹھ سال کے پیٹر کی تصویر ابھری‘ اسے محسوس ہوا‘ اس کی زندگی کا شاندار ترین وقت وہ تھا‘ جب وہ کھیتوں‘ جنگلوں اور وادیوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور اندیشوں اور آلام کے سایوں نے ابھی جنم نہیں لیا تھا‘ پیٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے آخری بار دھاگہ کھینچا‘ ٹک کی آواز آئی اور دھاگہ ٹوٹ گیا‘ وہ اب اپنی قبر کے سرہانے کھڑا تھا‘ قبر پرانی بھی تھی‘ بوسیدہ بھی اور ویران بھی۔ قبر اپنے حالات کے منہ سے بول رہی تھی‘ مجھے مدت سے کسی نے نہیں دیکھا‘ میرے سرہانے کوئی نہیں آیا‘ کسی نے مجھ پر ایک پھول تک قربان نہیں کیا‘ پیٹر نے ہچکی لی اور اس کی آنکھ کھل گئی‘ وہ اسی طرح جنگل میں بیٹھا تھا‘ ہاتھ میں گیند تھی اور بڑھیا اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔
پیٹر نے گیند بڑھیا کو واپس کی اور اس سے پوچھا ”وقت کیا ہے“ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور بولی ”وقت آج ہے‘ وقت لمحہ موجود ہے‘ آج سے پہلے افسوس تھا اور آج کے بعد حسرت ہو گی“ پیٹر نے پوچھا ”اور زندگی کیا ہے“ بڑھیا نے جواب دیا ”زندگی آج کو انجوائے کرنے کا نام ہے‘ آج کا دن‘ صرف آج کا دن‘ لمحہ موجود‘ جو لوگ آج میں بیٹھ کر گزرے کل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا جو آج میں بیٹھ کر مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں‘ ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا‘ انسان گزرے کل کو ٹھیک کر سکتا ہے اور نہ ہی آنے والے کل کو‘ یہ صرف آج کو ٹھیک کر سکتا ہے‘ یہ صرف آج کو درست رکھ سکتا ہے اور یہ صرف آج کو انجوائے کر سکتا ہے‘ تم آج آٹھ سال کے لڑکے ہو‘ تم اگلے سال نو سال کے ہو جاﺅ گے‘ تم اس کے بعد کچھ بھی کر لو تم آٹھ سال میں واپس نہیں آ سکو گے چنانچہ اٹھو اور آٹھ سال کو انجوائے کرو‘ خود کو خوابوں میں ضائع نہ کرو کیونکہ رابن سن کروسو ہو‘ رابن ہڈ ہو یا پھر کنگ لیئر ہو‘ ان سب کا اختتام بہرحال ویران قبروں پر ہوتا ہے‘ دنیا میں ماضی اور مستقبل دونوں مر جاتے ہیں‘ صرف آج زندہ رہتا ہے چنانچہ زندہ میں زندہ رہو‘ ہمیشہ زندہ رہو گے“ بڑھیا نے قہقہہ لگایا اور گیند سمیت غائب ہو گئی۔
پیٹر اٹھا اور وادی میں دوڑنے لگا‘ وہ اب آٹھویں سال کو انجوائے کر رہا تھا۔
گڈ بائی شجاعت عظیم
شجاعت عظیم بے وقوف آدمی ہے اور یہ بے وقوف آدمی بالآخر اس انجام کو پہنچ گیا جس انجام تک ہمارے جیسے ملکوں کے بے وقوف پہنچا کرتے ہیں‘ یہ 35 سال قبل ائیر فورس میں تھے‘ یہ امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے‘ نوکری سے استعفیٰ دیا لیکن استعفیٰ منظور نہ ہوا‘ یہ باز نہ آئے‘ یہ بار بار درخواست کرتے رہے‘ اعلیٰ افسروں کو یہ گستاخی پسند نہ آئی‘ ان پر اجازت کے بغیر چھٹی کرنے کا کیس بنا‘ کورٹ مارشل ہوا اور یہ ائیر فورس سے فارغ کر دیئے گئے‘ انہوںنے کیس کا مناسب دفاع نہیں کیا تھا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ائیر فورس چھوڑنا چاہتے تھے اور کورٹ مارشل کے ذریعے انہیں یہ موقع مل رہا تھا‘ یہ ان کی پہلی بے وقوفی تھی‘ انہیں چاہیے تھا‘یہ اعلیٰ تعلیم کا خبط نہ پالتے‘ یہ چپ چاپ یس سر بن جاتے‘ سلیوٹ کرتے‘ سلام کرتے‘ سینئرز کی بیگمات کو شاپنگ کرواتے‘ باسز کی خوشامدیں کرتے اور سرکاری خزانے سے بیرون ملک کورسز کرتے کرتے فورس کی آخری سیڑھی تک پہنچ جاتے‘ ان کی دوسری بے وقوفی کورٹ مارشل تھی‘ ان کو چاہیے تھا‘ یہ کیس کو ”مینج“ کر لیتے‘ معافی مانگ لیتے‘ کوئی تگڑی سفارش کرا لیتے اور ملک سے چپ چاپ نکل جاتے‘ بات ختم ہو جاتی لیکن یہ حماقت پر حماقت کرتے چلے گئے۔
شجاعت عظیم ائیر فورس سے فارغ ہونے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے‘ ملک سے باہر تعلیم بھی حاصل کی‘ کاروبار بھی کیا اور لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے خاندانی پائلٹ بھی رہے‘ یہ الحریری فیملی کا تقریباً حصہ تھے‘ یہ رفیق الحریری اور ان کے صاحبزادے سعد الحریری کو دنیا جہاں میں لے کر گئے‘ شجاعت عظیم نے جنرل پرویز مشرف کے الحریری فیملی اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ تعلقات بھی استوار کروائے‘ انہوں نے کینیڈا میں بزنس کیا اور اربوں روپے کمائے‘ لاہور میں ”سکھ چین“ کے نام سے ایک ہاﺅسنگ سکیم بھی بنائی‘ یہ ایک بھرپور اور شاندار زندگی گزار رہے تھے‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور لبنان کے شاہی خاندانوں کےخ ساتھ گھریلو مراسم تھے‘ کینیڈا اور امریکا میں بزنس تھا‘ شاندار گھر تھے‘ کینیڈین نیشنلٹی تھی‘ لاہور میں خوبصورت ہاﺅسنگ سکیم تھی‘ اسلام آباد میں پانچ ایکڑ کا شاہی فارم ہاﺅس تھا اور پوری دنیا میں دوست احباب تھے‘ زندگی میں سکون ہی سکون تھا لیکن پھر ان سے تیسری بے وقوفی ہو گئی‘ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کےلئے درخواستیں طلب کیں‘ 131 امیدواروں نے اپلائی کی‘ شجاعت عظیم بھی ان امیدواروں میں شامل تھے‘ پاکستان کے سب سے معتبر ادارے نے 131 میں سے 15 لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا‘ چار امیدواروں کو فائنل کیا گیا‘ سمری وزیراعظم کے پاس گئی اور وزیراعظم نے شجاعت عظیم کو سلیکٹ کر لیا‘ یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا‘ جولائی 2013ءمیں شجاعت عظیم نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا‘ وزیراعظم نے جنوری 2014ءمیں انہیںمعاون خصوصی برائے ہوا بازی تعینات کر دیا‘ یہ تقرری بھی عدالت میں چیلنج ہو گئی‘ شجاعت عظیم کو ان تقرریوں میں نہیں پڑنا چاہیے تھا‘ یہ آرام سے زندگی گزارتے‘ یہ کینیڈا‘ دوبئی‘ بیروت اور اسلام آباد میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی ملک کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو خوشحالی اور کامیابی کا خاص لیول اچیو کرنے کے بعد قوم کی خدمت کے خبط میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس خبط میں اپنی اور اپنے خاندان کی مت مار لیتے ہیں۔
سول ایوی ایشن کا ڈی جی اور بعد ازاں وزیراعظم کا مشیر بننا شجاعت عظیم کی تیسری بے وقوفی تھی‘ یہ اس کے بعد مسلسل بے وقوفیاں کرتے چلے گئے‘ مثلاً یہ 18 گھنٹے کام کرتے تھے اور اس کے بدلے ریاست سے کوئی تنخواہ‘ کوئی مراعات وصول نہیں کرتے تھے‘ یہ ملک کے اندر اور بیرون ملک تمام سفروں کے اخراجات‘ ائیر ٹکٹ‘ ہوٹلز‘ گاڑیوں اور کھانوں کے بل ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے‘ یہ اپنے سٹاف کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے تھے‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ شجاعت عظیم کے آنے سے پہلے پی آئی اے صرف 18 جہازوں تک محدود تھی‘ یہ انہیں 38 جہازوں تک لے گئے‘ اگلے ہفتے مزید دو جہازوں کا اضافہ ہو جائے گا‘ جون 2013ءتک پی آئی اے کی 31 فیصد فلائیٹس لیٹ ہوتی تھیں‘ یہ شرح اب 18 فیصد پر آ گئی ہے یعنی 82فیصد فلائیٹس وقت پر ہیں‘ پی آئی اے دس سال سے خسارے میں تھی‘ 2013ءتک اس کا خسارہ 44 ارب روپے سالانہ تھا‘ یہ خسارہ 2014ءمیں 28 ارب اور جون 2015ءمیں 18 ارب ہو گیا جبکہ 2015ءکی آخری سہ ماہی میں پی آئی اے نے دس سال بعد پہلی بار دو ارب 85 کروڑ روپے منافع کمایا‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ شجاعت عظیم نے ملک کے سات کامیاب ترین بزنس مینوں کو اعزازی ڈائریکٹر بھی بنا دیا‘ یہ لوگ ادارے سے ایک روپیہ نہیں لیتے لیکن یہ پی آئی اے کو کامیابی کے درجنوں مشورے دیتے ہیں‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ ملک میں پندرہ سال سے سول ایوی ایشن کی کوئی پالیسی نہیں تھی‘ شجاعت عظیم نے چھ ماہ میں پالیسی بنا دی‘ اس پالیسی کے نتیجے میں چارٹر ائیر لائنز اور پرائیویٹ ائیر لائنز پاکستان آنے لگیں‘ کوئٹہ‘ پشاور اور فیصل آباد کے ائیرٹرمینلز کو سٹیٹ آف دی آرٹ بنا دیا‘ میں ”عادی مسافر“ ہوں‘ میں مہینے میں دو تین بار ملک کے اندر اور کم از کم ایک بار بیرون ملک سفر کرتا ہوں‘ میں نے تین سال پی آئی اے سے انٹرنیشنل سفر نہیں کیا‘ میں چھ ماہ پہلے قومی ائیر لائین سے پیرس گیا تو مجھے یہ پی آئی اے پرانی پی آئی اے سے بہتر لگی‘ ائیر پورٹس کا ماحول بھی سو درجے تبدیل ہو چکا ہے‘ اسلام آباد ائیر پورٹ اب قدرے محفوظ بھی ہے‘ صاف ستھرا بھی اور آسان بھی۔ دنیا میں دستی سامان کے ”ٹیگس“ کو ختم ہوئے بیس سال ہو چکے تھے لیکن پاکستان میں یہ پچھلے سال تک چلتے رہے‘ آپ سامان پر ٹیگ لگاتے تھے‘ ان ٹیگس پر پھر مہر لگتی تھی‘ پھر انہیں پنچ کیاجاتا تھا اور پھر جہاز تک ان کا معائنہ ہوتا تھا‘ کسی نے اس فضول حرکت کا نوٹس نہیں لیا مگر شجاعت عظیم نے آتے ہی حماقت کا یہ سلسلہ بند کر دیا اور ائیر پورٹس پر نئے کاﺅنٹر بھی بنے‘ واش روم بھی ٹھیک ہوئے‘ کافی شاپس بھی بنیں اور عملے کا رویہ بھی تبدیل ہوا‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ اسلام آباد کے نئے ائیر پورٹ کا افتتاح اپریل 2007ءمیں ہوا تھا‘ یہ ائیر پورٹ سات برسوں میں صرف 65 فیصد مکمل ہوا‘ اس شخص نے اڑھائی سال میں اسے تکمیل کے قریب پہنچا دیا‘ یہ اگلے سال کے آخر تک کھول دیا جائے گا‘ ملک میں سول ایوی ایشن کا صرف ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تھا‘ اس شخص نے 9 بنا دیئے‘ یہاں سے اب دو سال میں 12 سو ائیروناٹیکل انجینئر نکلیں گے‘ پاکستان میں 68 سال سے دھند کے دوران فلائیٹس بند ہو جاتی ہیں‘ اس شخص نے ذاتی تعلقات استعمال کر کے لاہور ائیرپورٹ پر آئی ایل ایس سسٹم لگوا دیا‘ یہ اربوں روپے کا سسٹم قطر کی حکومت نے پاکستان کو گفٹ کیا‘ پی آئی اے دوبئی کی عام سی دوکانوں سے جہازوں کے پرزے خریدتی تھی‘ یہ پرزے خطرناک ہوتے تھے‘ اس شخص نے یہ پریکٹس بند کرا دی‘ پی آئی اے اب بوئنگ کارپوریشن سے اصلی پرزے خرید رہی ہے اور اس شخص نے پی آئی اے سے 302 جعلی ڈگری ہولڈر بھی نکال دیئے‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں تھی اور کیا شجاعت عظیم بے وقوفیوں کے اس طویل پروفائل کے ساتھ بے وقوف ثابت نہیں ہو جاتے؟۔
شجاعت عظیم کے دو جرائم ہیں‘ یہ بے وقوف ہیں اور یہ انسان ہیں اور ہمیں اس ملک میں انسان چاہئیں اور نہ ہی مفت ڈیلیور کرنے والے بے وقوف۔ ہمیں یہاں صرف فرشتے چاہئیں‘ ایسے فرشتے جن کے گیلے دامن سے ہم وضو کر سکیں یا پھر ہمیں جنرل یحییٰ خان جیسے عظیم حکمران چاہئیں جو ملک کو حمود الرحمن رپورٹ دے کر قومی اعزازات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائیں لیکن شاید کبھی کبھی یہ مرحوم جنرل یحییٰ خان بھی فرشتوں سے یہ پوچھتے ہوں‘ وہ قوم جو مجھے سلام کرتی رہی‘ اس نے شجاعت عظیم کو کام کیوں نہیں کرنے دیا؟ یہ درست ہے‘ شجاعت عظیم کا کورٹ مارشل ہوا تھا لیکن کیا کورٹ مارشل سیکورٹی رسک‘ کوٹیکنا‘ ہائی جیکنگ اور آئین توڑنے سے بڑا جرم تھا؟ یہ وہ ملک ہے جس میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو دوبار سیکورٹی رسک‘ کرپٹ اور نااہل قرار دے کر حکومت سے فارغ کیا گیا تھا‘ آصف علی زرداری کرپشن کے سنگین جرائم میں گیارہ سال جیل میں رہے لیکن پھر اسی ریاست نے اس سیکورٹی رسک اور اس کرپٹ شخص کو اس عالم میں صدر تسلیم کر لیا کہ ان کے خلاف سوئٹرز لینڈ میں مقدمے چل رہے تھے‘ میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے کیس میں جیلوں میں بند رہے اور جنرل پرویز مشرف وہ آئین توڑ کرچھ سال اور پانچ ماہ تک ملک کے باوردی صدر رہے جسے توڑنے کی سزا موت ہے لیکن ہم نے آصف علی زرداری کو صدر اور میاں نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بھی بنایا اور جنرل پرویز مشرف آرٹیکل چھ کے ملزم ہونے کے باوجود گھر میں بیٹھ کر سابق صدر اور سابق آرمی چیف کی تمام مراعات انجوائے کر رہے ہیں‘ ہمارے ملک میں ایسے ایسے لوگ بھی حکومت کر گئے جنہیں پاکستان کا پہلا پاسپورٹ جہاز میں اس وقت دیا گیا تھا جب وہ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کےلئے تشریف لا رہے تھے‘ وہ آئے‘ حکومت کی‘ ملک کا بیڑا غرق کیا‘ پاسپورٹ پھاڑ کر پھینکا اور واپس چلے گئے لیکن ریاست‘ ریاست کے اعلیٰ ادارے اور محترم عدلیہ سب خاموش رہے‘ جس ملک میں آصف علی زرداری سنگین جرائم کے بعد صدر‘ میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے چارجز کے بعد وزیراعظم اور جنرل پرویز مشرف آئین توڑنے‘ ملک میں دو بار مارشل لاءلگانے کے باوجود صدر بن سکتے ہیں‘ اس ملک میں شجاعت عظیم معاوضے کے بغیر کام کیوں نہیں کر سکتا؟ ہم نے جب معین قریشی اور شوکت عزیز کو غیر ملکی پاسپورٹس کے باوجود وزراءاعظم مان لیا تھا‘ ہم نے جب ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کو یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا تھا اور ہم جب ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے داخل ہونے پر خاموش رہے تھے تو پھر شجاعت عظیم کے ”جرائم“ پر اتنا شور کیوں ہے؟ قانون اور آئین ان کو عبرت کی نشانی کیوں بنانا چاہتا ہے؟ ہم نے آج تک جنرل پرویز مشرف کے ”پی سی او“ پر حلف اٹھانے والوں کا احتساب نہیں کیا‘ ہم نے ان لوگوں کو کورٹ میں بلا کر نہیں پوچھا جنہوں نے پی آئی اے کو خسارے کا قبرستان بنا دیا تھا‘ جن کی وجہ سے یہ ادارہ ہر سال 44 ارب روپے کا نقصان کرتا تھا‘ جو جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تیس تیس سال ملازمتیں کرتے رہے اور جو بل امریکا کے بناتے تھے اور سپیئر پارٹس دوبئی سے خریدتے تھے لیکن ہم نے بلااجازت چھٹی کرنے کے جرم میں ائیرفورس سے فارغ ہونے والے شجاعت عظیم پر پورا قانون نافذ کر دیا‘ کیوں؟ کیوں؟ ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم مارشل لاءوالوں کو ملک تک توڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن ہم کورٹ مارشل والوں کو مفت کام نہیں کرنے دیتے‘ ہاتھی خواہ ہماری پوری فصل اجاڑ دیں لیکن ہم بکری کو مفت دودھ نہیں دینے دیں گے‘ واہ‘ سبحان اللہ۔
شجاعت عظیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں‘ یہ چالیس بے وقوفیوں کے بعد ان کی پہلی عقل مندی ہے‘ میں انہیں اس عقل مندی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں‘ گڈ بائی شجاعت عظیم۔ آپ اگر اگلی بار آئیں تو معین قریشی بن کر آئیں‘ قوم آپ کا والہانہ استقبال کرے گی‘ چیف جسٹس آپ سے حلف لیں گے اور ملک کے تمام آئینی ادارے آپ کو سلیوٹ کریں گے‘ ہر بار بے وقوفی اچھی نہیں ہوتی‘ انسان کو میچور بھی ہونا چاہیے۔
شجاعت عظیم ائیر فورس سے فارغ ہونے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے‘ ملک سے باہر تعلیم بھی حاصل کی‘ کاروبار بھی کیا اور لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کے خاندانی پائلٹ بھی رہے‘ یہ الحریری فیملی کا تقریباً حصہ تھے‘ یہ رفیق الحریری اور ان کے صاحبزادے سعد الحریری کو دنیا جہاں میں لے کر گئے‘ شجاعت عظیم نے جنرل پرویز مشرف کے الحریری فیملی اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ تعلقات بھی استوار کروائے‘ انہوں نے کینیڈا میں بزنس کیا اور اربوں روپے کمائے‘ لاہور میں ”سکھ چین“ کے نام سے ایک ہاﺅسنگ سکیم بھی بنائی‘ یہ ایک بھرپور اور شاندار زندگی گزار رہے تھے‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور لبنان کے شاہی خاندانوں کےخ ساتھ گھریلو مراسم تھے‘ کینیڈا اور امریکا میں بزنس تھا‘ شاندار گھر تھے‘ کینیڈین نیشنلٹی تھی‘ لاہور میں خوبصورت ہاﺅسنگ سکیم تھی‘ اسلام آباد میں پانچ ایکڑ کا شاہی فارم ہاﺅس تھا اور پوری دنیا میں دوست احباب تھے‘ زندگی میں سکون ہی سکون تھا لیکن پھر ان سے تیسری بے وقوفی ہو گئی‘ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کےلئے درخواستیں طلب کیں‘ 131 امیدواروں نے اپلائی کی‘ شجاعت عظیم بھی ان امیدواروں میں شامل تھے‘ پاکستان کے سب سے معتبر ادارے نے 131 میں سے 15 لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا‘ چار امیدواروں کو فائنل کیا گیا‘ سمری وزیراعظم کے پاس گئی اور وزیراعظم نے شجاعت عظیم کو سلیکٹ کر لیا‘ یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا‘ جولائی 2013ءمیں شجاعت عظیم نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا‘ وزیراعظم نے جنوری 2014ءمیں انہیںمعاون خصوصی برائے ہوا بازی تعینات کر دیا‘ یہ تقرری بھی عدالت میں چیلنج ہو گئی‘ شجاعت عظیم کو ان تقرریوں میں نہیں پڑنا چاہیے تھا‘ یہ آرام سے زندگی گزارتے‘ یہ کینیڈا‘ دوبئی‘ بیروت اور اسلام آباد میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی ملک کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو خوشحالی اور کامیابی کا خاص لیول اچیو کرنے کے بعد قوم کی خدمت کے خبط میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس خبط میں اپنی اور اپنے خاندان کی مت مار لیتے ہیں۔
سول ایوی ایشن کا ڈی جی اور بعد ازاں وزیراعظم کا مشیر بننا شجاعت عظیم کی تیسری بے وقوفی تھی‘ یہ اس کے بعد مسلسل بے وقوفیاں کرتے چلے گئے‘ مثلاً یہ 18 گھنٹے کام کرتے تھے اور اس کے بدلے ریاست سے کوئی تنخواہ‘ کوئی مراعات وصول نہیں کرتے تھے‘ یہ ملک کے اندر اور بیرون ملک تمام سفروں کے اخراجات‘ ائیر ٹکٹ‘ ہوٹلز‘ گاڑیوں اور کھانوں کے بل ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے‘ یہ اپنے سٹاف کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے تھے‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ شجاعت عظیم کے آنے سے پہلے پی آئی اے صرف 18 جہازوں تک محدود تھی‘ یہ انہیں 38 جہازوں تک لے گئے‘ اگلے ہفتے مزید دو جہازوں کا اضافہ ہو جائے گا‘ جون 2013ءتک پی آئی اے کی 31 فیصد فلائیٹس لیٹ ہوتی تھیں‘ یہ شرح اب 18 فیصد پر آ گئی ہے یعنی 82فیصد فلائیٹس وقت پر ہیں‘ پی آئی اے دس سال سے خسارے میں تھی‘ 2013ءتک اس کا خسارہ 44 ارب روپے سالانہ تھا‘ یہ خسارہ 2014ءمیں 28 ارب اور جون 2015ءمیں 18 ارب ہو گیا جبکہ 2015ءکی آخری سہ ماہی میں پی آئی اے نے دس سال بعد پہلی بار دو ارب 85 کروڑ روپے منافع کمایا‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ شجاعت عظیم نے ملک کے سات کامیاب ترین بزنس مینوں کو اعزازی ڈائریکٹر بھی بنا دیا‘ یہ لوگ ادارے سے ایک روپیہ نہیں لیتے لیکن یہ پی آئی اے کو کامیابی کے درجنوں مشورے دیتے ہیں‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ ملک میں پندرہ سال سے سول ایوی ایشن کی کوئی پالیسی نہیں تھی‘ شجاعت عظیم نے چھ ماہ میں پالیسی بنا دی‘ اس پالیسی کے نتیجے میں چارٹر ائیر لائنز اور پرائیویٹ ائیر لائنز پاکستان آنے لگیں‘ کوئٹہ‘ پشاور اور فیصل آباد کے ائیرٹرمینلز کو سٹیٹ آف دی آرٹ بنا دیا‘ میں ”عادی مسافر“ ہوں‘ میں مہینے میں دو تین بار ملک کے اندر اور کم از کم ایک بار بیرون ملک سفر کرتا ہوں‘ میں نے تین سال پی آئی اے سے انٹرنیشنل سفر نہیں کیا‘ میں چھ ماہ پہلے قومی ائیر لائین سے پیرس گیا تو مجھے یہ پی آئی اے پرانی پی آئی اے سے بہتر لگی‘ ائیر پورٹس کا ماحول بھی سو درجے تبدیل ہو چکا ہے‘ اسلام آباد ائیر پورٹ اب قدرے محفوظ بھی ہے‘ صاف ستھرا بھی اور آسان بھی۔ دنیا میں دستی سامان کے ”ٹیگس“ کو ختم ہوئے بیس سال ہو چکے تھے لیکن پاکستان میں یہ پچھلے سال تک چلتے رہے‘ آپ سامان پر ٹیگ لگاتے تھے‘ ان ٹیگس پر پھر مہر لگتی تھی‘ پھر انہیں پنچ کیاجاتا تھا اور پھر جہاز تک ان کا معائنہ ہوتا تھا‘ کسی نے اس فضول حرکت کا نوٹس نہیں لیا مگر شجاعت عظیم نے آتے ہی حماقت کا یہ سلسلہ بند کر دیا اور ائیر پورٹس پر نئے کاﺅنٹر بھی بنے‘ واش روم بھی ٹھیک ہوئے‘ کافی شاپس بھی بنیں اور عملے کا رویہ بھی تبدیل ہوا‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ اسلام آباد کے نئے ائیر پورٹ کا افتتاح اپریل 2007ءمیں ہوا تھا‘ یہ ائیر پورٹ سات برسوں میں صرف 65 فیصد مکمل ہوا‘ اس شخص نے اڑھائی سال میں اسے تکمیل کے قریب پہنچا دیا‘ یہ اگلے سال کے آخر تک کھول دیا جائے گا‘ ملک میں سول ایوی ایشن کا صرف ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تھا‘ اس شخص نے 9 بنا دیئے‘ یہاں سے اب دو سال میں 12 سو ائیروناٹیکل انجینئر نکلیں گے‘ پاکستان میں 68 سال سے دھند کے دوران فلائیٹس بند ہو جاتی ہیں‘ اس شخص نے ذاتی تعلقات استعمال کر کے لاہور ائیرپورٹ پر آئی ایل ایس سسٹم لگوا دیا‘ یہ اربوں روپے کا سسٹم قطر کی حکومت نے پاکستان کو گفٹ کیا‘ پی آئی اے دوبئی کی عام سی دوکانوں سے جہازوں کے پرزے خریدتی تھی‘ یہ پرزے خطرناک ہوتے تھے‘ اس شخص نے یہ پریکٹس بند کرا دی‘ پی آئی اے اب بوئنگ کارپوریشن سے اصلی پرزے خرید رہی ہے اور اس شخص نے پی آئی اے سے 302 جعلی ڈگری ہولڈر بھی نکال دیئے‘ کیا یہ بے وقوفی نہیں تھی اور کیا شجاعت عظیم بے وقوفیوں کے اس طویل پروفائل کے ساتھ بے وقوف ثابت نہیں ہو جاتے؟۔
شجاعت عظیم کے دو جرائم ہیں‘ یہ بے وقوف ہیں اور یہ انسان ہیں اور ہمیں اس ملک میں انسان چاہئیں اور نہ ہی مفت ڈیلیور کرنے والے بے وقوف۔ ہمیں یہاں صرف فرشتے چاہئیں‘ ایسے فرشتے جن کے گیلے دامن سے ہم وضو کر سکیں یا پھر ہمیں جنرل یحییٰ خان جیسے عظیم حکمران چاہئیں جو ملک کو حمود الرحمن رپورٹ دے کر قومی اعزازات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائیں لیکن شاید کبھی کبھی یہ مرحوم جنرل یحییٰ خان بھی فرشتوں سے یہ پوچھتے ہوں‘ وہ قوم جو مجھے سلام کرتی رہی‘ اس نے شجاعت عظیم کو کام کیوں نہیں کرنے دیا؟ یہ درست ہے‘ شجاعت عظیم کا کورٹ مارشل ہوا تھا لیکن کیا کورٹ مارشل سیکورٹی رسک‘ کوٹیکنا‘ ہائی جیکنگ اور آئین توڑنے سے بڑا جرم تھا؟ یہ وہ ملک ہے جس میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو دوبار سیکورٹی رسک‘ کرپٹ اور نااہل قرار دے کر حکومت سے فارغ کیا گیا تھا‘ آصف علی زرداری کرپشن کے سنگین جرائم میں گیارہ سال جیل میں رہے لیکن پھر اسی ریاست نے اس سیکورٹی رسک اور اس کرپٹ شخص کو اس عالم میں صدر تسلیم کر لیا کہ ان کے خلاف سوئٹرز لینڈ میں مقدمے چل رہے تھے‘ میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے کیس میں جیلوں میں بند رہے اور جنرل پرویز مشرف وہ آئین توڑ کرچھ سال اور پانچ ماہ تک ملک کے باوردی صدر رہے جسے توڑنے کی سزا موت ہے لیکن ہم نے آصف علی زرداری کو صدر اور میاں نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بھی بنایا اور جنرل پرویز مشرف آرٹیکل چھ کے ملزم ہونے کے باوجود گھر میں بیٹھ کر سابق صدر اور سابق آرمی چیف کی تمام مراعات انجوائے کر رہے ہیں‘ ہمارے ملک میں ایسے ایسے لوگ بھی حکومت کر گئے جنہیں پاکستان کا پہلا پاسپورٹ جہاز میں اس وقت دیا گیا تھا جب وہ وزیراعظم کا حلف اٹھانے کےلئے تشریف لا رہے تھے‘ وہ آئے‘ حکومت کی‘ ملک کا بیڑا غرق کیا‘ پاسپورٹ پھاڑ کر پھینکا اور واپس چلے گئے لیکن ریاست‘ ریاست کے اعلیٰ ادارے اور محترم عدلیہ سب خاموش رہے‘ جس ملک میں آصف علی زرداری سنگین جرائم کے بعد صدر‘ میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے چارجز کے بعد وزیراعظم اور جنرل پرویز مشرف آئین توڑنے‘ ملک میں دو بار مارشل لاءلگانے کے باوجود صدر بن سکتے ہیں‘ اس ملک میں شجاعت عظیم معاوضے کے بغیر کام کیوں نہیں کر سکتا؟ ہم نے جب معین قریشی اور شوکت عزیز کو غیر ملکی پاسپورٹس کے باوجود وزراءاعظم مان لیا تھا‘ ہم نے جب ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کو یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا تھا اور ہم جب ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے داخل ہونے پر خاموش رہے تھے تو پھر شجاعت عظیم کے ”جرائم“ پر اتنا شور کیوں ہے؟ قانون اور آئین ان کو عبرت کی نشانی کیوں بنانا چاہتا ہے؟ ہم نے آج تک جنرل پرویز مشرف کے ”پی سی او“ پر حلف اٹھانے والوں کا احتساب نہیں کیا‘ ہم نے ان لوگوں کو کورٹ میں بلا کر نہیں پوچھا جنہوں نے پی آئی اے کو خسارے کا قبرستان بنا دیا تھا‘ جن کی وجہ سے یہ ادارہ ہر سال 44 ارب روپے کا نقصان کرتا تھا‘ جو جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تیس تیس سال ملازمتیں کرتے رہے اور جو بل امریکا کے بناتے تھے اور سپیئر پارٹس دوبئی سے خریدتے تھے لیکن ہم نے بلااجازت چھٹی کرنے کے جرم میں ائیرفورس سے فارغ ہونے والے شجاعت عظیم پر پورا قانون نافذ کر دیا‘ کیوں؟ کیوں؟ ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم مارشل لاءوالوں کو ملک تک توڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن ہم کورٹ مارشل والوں کو مفت کام نہیں کرنے دیتے‘ ہاتھی خواہ ہماری پوری فصل اجاڑ دیں لیکن ہم بکری کو مفت دودھ نہیں دینے دیں گے‘ واہ‘ سبحان اللہ۔
شجاعت عظیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں‘ یہ چالیس بے وقوفیوں کے بعد ان کی پہلی عقل مندی ہے‘ میں انہیں اس عقل مندی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں‘ گڈ بائی شجاعت عظیم۔ آپ اگر اگلی بار آئیں تو معین قریشی بن کر آئیں‘ قوم آپ کا والہانہ استقبال کرے گی‘ چیف جسٹس آپ سے حلف لیں گے اور ملک کے تمام آئینی ادارے آپ کو سلیوٹ کریں گے‘ ہر بار بے وقوفی اچھی نہیں ہوتی‘ انسان کو میچور بھی ہونا چاہیے۔
Top 10 Health Tips Of Bananas And Banana Fruit Benefits
ReplyDeleteHealth Tips Of Bananas
Health Tips Find Beauty Tips and Tricks For Learn Health
Pakhealthtips.com/
Health Tips, Health News, Health Care and Fitness Tips
Health Tips
Health Benefits of Fruit: Vitamins, Minerals + Fiber
Fruit Health Tips
Health Benefits of Vegetables: Vitamins, Nutrients, Fiber
Vegetable Health Tips